چاہتے ہیں بلوچ مظاہرین سے بقیہ مذاکرات بلوچستان میں ہوں: نگران وزیر اطلاعات

پاکستان کے نگران وزیر اطلاعات و نشریات مرتضیٰ سولنگی نے کہا ہے کہ ’ہمارے پاؤں میں مہندی نہیں لگی کہ ہم نہیں جا سکتے، ہم جائیں گے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ گفتگو کر کے اس کے حل کی طرف جائیں۔‘

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے تحت بالاچ بلوچ کے قاتلوں کی گرفتاری اور دیگر بلوچوں گمشدگی  کے خلاف احتجاجی دھرنا 20 دسمبر 2023 کو نیشنل پریس کلب کے سامنے جاری ہے جس میں خواتین بھی شریک ہیں (انڈپینڈنٹ اردو)

پاکستان کے نگران وزیر اطلاعات و نشریات مرتضیٰ سولنگی کا کہنا ہے کہ گذشتہ روز بھی مذاکراتی کمیٹی کے بلوچ مظاہرین سے مذاکرات ہوئے تاہم ’ہم چاہتے ہیں کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ بقیہ مذاکرات اسلام آباد کی بجائے بلوچستان یا کوئٹہ میں ہوں۔‘

نگران وفاقی وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی  نے نجی ٹی وی چینل جی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان سے آئے مظاہرین میں اکثریت خواتین کی ہے جو اس وقت اسلام آباد پریس کلب کے سامنے موجود ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ہماری خواہش ہے کہ مظاہرین عزت، وقار اور سلامتی کے ساتھ اپنے گھروں کو واپس جائیں اور مزید مذاکرات اسلام آباد میں نہ ہوں۔ بہتر ہو گا کہ بلوچستان میں ہوں، کوئٹہ میں ہوں۔‘

مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاؤں میں مہندی نہیں لگی کہ ہم نہیں جا سکتے، ہم جائیں گے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ گفتگو کر کے اس کے حل کی طرف جائیں۔‘

بلوچستان سے آئے مظاہرین میں سے گرفتار کیے جانے والے افراد کے بارے میں نگران وزیر اطلاعات نے کہا کہ ’گرفتار خواتین کو دو دن پہلے ہی رہا کر دیا گیا تھا جبکہ 163 مردوں کی رہائی کا عمل جاری ہے۔‘

’مٹھی بھر افراد ایجنڈا کے تحت اسلام آباد آئے‘

اس سے قبل اتوار ہی کو بلوچستان کے وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے کہا تھا کہ ’بلوچستان سے آنے والے مظاہرین بلوچ قوم کی نمائندگی نہیں کرتے اور صرف مٹھی بھر افراد ایک ایجنڈا کے تحت اسلام آباد آئے ہیں۔‘

صوبائی وزیر نے بیان ایک نیوز کانفرنس کے دوران دیا ہے جو کہ اسلام آباد پولیس کے اس بیان کے دو گھنٹے بعد کی گئی جس میں قانونی تقاضوں کے بعد گرفتار مظاہرین کو ضمانت کے بعد رہا کیے جانے کا اعلان کیا گیا تھا۔

اپنی پریس کانفرنس میں جان اچکزئی نے کہا: ’یہ بلوچ کمیٹی کا لانگ مارچ ہے، یہ بلوچ قوم کی نمائندگی نہیں کر سکتے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’جس شخص کے لیے یہ مارچ کیا گیا وہ دہشت گردی کے 11 واقعات میں ملوث تھا،‘ ریاست نے امام شنبے اور سرفراز بنگلزئی جیسے عسکریت پسندوں کو بھی قومی دھارے میں شامل کیا۔

’نارض بلوچ رہنماؤں کو قومی دھارے میں شامل کرنے سے انڈیا کو بھی دھچکا لگا۔‘

صوبائی وزیر نے کہا کہ دھرنے کے شرکا کا طریقہ کار یہ تھا کہ یہ کوئٹہ گئے اور پھر کوہلو اور ڈیرہ اسماعیل خان جہاں سے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے کارکنان نے ان کا قافلہ جوائن کیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ لوگ اپنے ایجنڈا میں کامیاب نہیں ہوں گے اور ریاست ان کے کہنے پر انسداد دہشت گردی سمیت کسی ادارے سے لاتعلقی کا اظہار نہیں کر سکتی۔

گرفتار بلوچ مظاہرین کی ضمانتیں منظور، رہائی کا عمل جاری ہے: اسلام آباد پولیس

اسلام آباد پولیس نے اتوار کو کہا کہ بلوچستان سے دارالحکومت آنے والے مظاہرین جن کو گرفتار کیا گیا تھا، ان کی ضمانتیں منظور ہو گئی ہیں جبکہ رہائی کا عمل بھی جاری ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام ’جبری گمشدگیوں‘ اور ’ماورائے عدالت قتل‘ کے خلاف وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں دھرنے دیے گئے تھے جس میں سے مظاہرین کو گرفتار بھی کیا گیا تھا۔

اسلام آباد پولیس نے ایکس پر اپنے پیغام میں کہا کہ نگران وزیراعظم پاکستان انوار الحق کاکڑ کی تشکیل کردہ کمیٹی اور گورنر بلوچستان سے مظاہرین نے گرفتار افراد کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا اور قانونی تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ضمانتیں منظور ہو گئی ہیں۔

پولیس کا مزید کہنا تھا کہ’ گرفتار افراد کے عزیز و اقارب معلومات اور مدد کےلیے رابطہ کریں تاکہ ان کو قانونی معاونت فراہم کی جا سکے۔‘

اس سے قبل پاکستان کے وفاقی سیکریٹری داخلہ آفتاب اکبر درانی نے اتوار کوبتایا تھا کہ اسلام آباد میں ’بلوچ یکجہتی کمیٹی‘ کے دھرنے میں شامل مظاہرین سے وزیراعظم کی قائم کردہ کمیٹی کے مذاکرات جاری ہیں۔

وفاقی سیکریٹری داخلہ آفتاب اکبر درانی کی جانب سے ذرائع ابلاغ کو جاری کیے جانے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’پر امن احتجاج کا ہر پاکستانی شہری کو حق حاصل ہے اور نگران وزیر اعظم کی ہدایت پر اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ مظاہرین کو کسی بھی قسم کے تشدد یا ہراسگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔‘

بیان میں کہا گیا ہے کہ ’کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہ دی جائے گی اور عدالتی احکامات پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے گا۔‘

بلوچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی علاقائی تنظیم بلوچ یکجہتی کمیٹی کے لانگ مارچ کی قیادت کرنے والی ماہ رنگ بلوچ نے ہفتے کو کہا تھا کہ ’ہمارا مطالبہ ہے کہ اقوام متحدہ کی ورکنگ کمیٹی غیر جانبدارانہ طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لے۔

ماہ رنگ بلوچ نے دھرنے کے مقام پر ہفتے کو انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ تحریک بالاچ بلوچ کے قتل سے شروع ہوئی۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان کے قاتلوں کو سزا دی جائے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اس مارچ کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ جب ایک پرامن موومنٹ شروع ہوئی تو ریاست نے شرکا کو روکنے کے لیے کیا نہیں کیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

23 نومبر 2023 کو بلوچستان سے شروع ہونے والے اس احتجاج کو، جو اس وقت نیشنل پریس کلب کے باہر جاری ہے، اب 30 روز گزر چکے ہیں۔

پاکستان کے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے گذشتہ روز ہم نیوز ٹی وی کو دیے جانے والے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ ’ہر کو احتجاج کا حق ہے اور بلوچ مظاہرین کو احتجاج کرنے سے کسی نے نہیں روکا تھا البتہ ان کے مطالبات صوبائی نوعیت کے ہیں۔ میں نے اس پر ایک کمیٹی بنا دی گئی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’بے شک وہ (مظاہرین) اسلام آباد پریس کلب آئین لیکن روڈز بلاک نہ ہوں۔ ہم ان کے جائز مطالبات کو تسلیم بھی کریں گے اور ان کو حل کرنے کی کوشش بھی کریں گے۔‘


مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان