وزیراعظم ہمارا مسئلہ حل نہیں کر سکتے، تحریک دنیا کو سنانا چاہتے ہیں: بلوچ مظاہرین

ماہ رنگ بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارا مطالبہ ہے کہ اقوام متحدہ کی ورکنگ کمیٹی غیر جانبدارانہ طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لے۔‘

بلوچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی علاقائی تنظیم بلوچ یکجہتی کمیٹی کے لانگ مارچ کی قیادت کرنے والی ماہ رنگ بلوچ نے ہفتے کو کہا ہے کہ ’ہمارا مطالبہ ہے کہ اقوام متحدہ کی ورکنگ کمیٹی غیر جانبدارانہ طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لے۔‘

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام ’جبری گمشدگیوں‘ اور ’ماورائے عدالت قتل‘ کے خلاف وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پریس کلب کے باہر احتجاجی دھرنا جاری ہے۔

ماہ رنگ بلوچ نے دھرنے کے مقام پر انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’یہ تحریک بالاچ بلوچ کے قتل سے شروع ہوئی۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان کے قاتلوں کو سزا دی جائے۔ ‘

انہوں نے کہا کہ ’اس مارچ کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ جب ایک پرامن موومنٹ شروع ہوئی تو ریاست نے شرکا کو روکنے کے لیے کیا نہیں کیا۔‘

یاد رہے 23 نومبر کو بلوچستان سے شروع ہونے والے اس احتجاج کو، جو اس وقت نیشنل پریس کلب کے باہر جاری ہے، اب 30 روز گزر چکے ہیں۔

ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ ’ان 30 روز میں ان کے پاس ایسا کوئی فرد نہیں آیا جس نے کہا ہو کہ وہ اس مسئلے کو حل کریں گے۔‘

’ہم پر بیانات جاری کیے گئے کہ ہم اور یہ تنظیم دہشت گرد ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ریاست بالکل سنجیدہ نہیں ہے۔‘

نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے حالیہ دنوں ایک بیان میں کہا تھا کہ ملک میں اس وقت 52 افراد لاپتہ ہیں۔ تاہم بلوچ نیشنل پارٹی کےسربراہ سردار اختر مینگل نے کہا تھا کہ پاکستان میں جبری طور پر گمشدہ افراد یا گمشدہ افراد کی تعداد ہزاروں میں ہے۔

اس پر ماہ رنگ بلوچ کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک سنگین مسئلہ ہے، اس پر سیاست نہ کی جائے۔ ہم اپنے ساتھ ثبوت لے کر آئے ہیں۔‘

’آپ نے کہا کہ لاپتہ افراد کی تعداد اتنی ہے، ہمیں ان 30 دنوں کے مارچ میں نئے کیسز ملے ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ اقوام متحدہ کی ورکنگ کمیٹی غیر جانبدارانہ طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لے۔‘

پاکستان حکومت ماضی میں ایسے تمام دعوؤں اور الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔

دوسری جانب پاکستان کے نگران وزیر اطلاعات و نشریات مرتضیٰ سولنگی نے گذشتہ روز 22 دسمبر 2023 کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بلوچ افراد کے مظاہرے کے حوالے سے کہا تھا کہ ’جو کچھ بھی ہوا ہے یہ ایک ناخوشگوار قسم کی صورت حال ہے جس کو ہم ہینڈل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’جو مطالبات ہیں وہ آج کے نہیں ہیں۔ نگران حکومت کے دور کے نہیں ہیں بلکہ یہ کئی دہائیوں کے مسائل ہیں۔‘

مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ ’بہرحال ہم حکومت ہیں ہم نے اس کو کسی نہ کسی طرح سے ہینڈل کرنا ہے۔‘

دھرنے کی منتظم سائرہ بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ گذشتہ 25 روز سے اس مقام پر کیمپ لگا ہوا تھا۔ آج مزید افراد اس کیمپ میں شامل ہو گئے ہیں اور اب یہ دھرنے کی صورت اختیار کر گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ تمام افراد اسلام آباد اس لیے نہیں آئے کہ یہاں کوئی وزیر اعظم بیٹھا ہے، ان کے بیانات ہمارے سامنے ہیں۔ یہ ہمارا مسئلہ حل نہیں کر سکتے۔ ہم اپنی تحریک دنیا کو سنانا چاہتے ہیں۔‘

ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ ’آپ نے کہا لاپتہ افراد کی تعداد اتنی ہے، ہمیں ان 30 دنوں کے مارچ میں نئے کیسز ملے ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ اقوام متحدہ کی ورکنگ کمیٹی غیر جانبدارانہ طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’یہ تحریک بالاچ بلوچ کے قتل سے شروع ہوئی۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان کے قاتلوں کو سزا دی جائے۔‘

یہ احتجاج ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب 30 سالہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کا ایک لانگ مارچ بلوچستان کے علاقے تربت میں مبینہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے بلوچ نوجوان بالاچ بخش کے واقعے کی جوڈیشل انکوائری اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے رواں ماہ کے آغاز میں تربت سے اسلام آباد روانہ ہوا تھا۔

20 دسمبر کی شب جب یہ وفاقی دارالحکومت پہنچا تو اسلام آباد پولیس نے ان کے خلاف آپریشن کرکے درجنوں افراد کو گرفتار کرلیا تھا، جس کے خلاف کمیٹی نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

24 سالہ بالاچ کے ضلع تربت میں محکمہ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے 23 نومبر کو کیے جانے والے متنازع آپریشن کے بعد ماروائے عدالت قتل کے حوالے سے بحث شروع ہوئی تھی، تاہم ریاستی ادارے ان میں ملوث ہونے کی تردید کرتے ہیں۔

ماہ رنگ بلوچ نے گذشتہ روز ایکس پر لکھا تھا: ’کل صبح 10 بجے اسلام آباد پریس کلب کے سامنے پر امن ریلی نکالی جائے گی۔‘

انہوں نے صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے اپیل کی کہ ’اس ریلی اور ہمارے احتجاجی کیمپ میں شرکت کرکے اس جدوجہد میں ہمارا ساتھ دیں۔‘

دریں اثنا، اسلام آباد پولیس نے مظاہرین کے خواتین اور بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے اسے ’منظم غلط معلومات کی مہم‘ قرار دیا ہے۔

اسلام آباد پولیس کی جانب سے ایکس پر ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’21-22 دسمبر کو بلوچ یکجہتی مارچ کے دوران کسی بھی وقت کسی بھی عورت یا بچے کے ساتھ بدسلوکی نہیں کی گئی۔ تمام خواتین کو ان کے رشتہ داروں یا دوستوں کے ہمراہ حفاظت کے ساتھ بھیجا گیا تھا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پولیس نے مزید کہا ہے کہ ’تمام افراد کو عدالت میں پیش کیا گیا ہے اور وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے تشکیل دی گئی وزارتی کمیٹی کی ہدایات کے مطابق مناسب طریقہ کار کے ذریعے رہا کیا جائے گا۔‘

اس سے قبل بلوچ یکجہتی کمیٹی کا یہ لانگ مارچ بلوچستان کے علاقے تربت سے جب بدھ (20 دسمبر) کی شب وفاقی دارالحکومت پہنچا تو انہیں نیشنل پریس کلب کی جانب جانے سے روک دیا گیا، جس کے بعد مارچ کے شرکا نے موٹر وے ٹول پلازہ کے نزدیک 26 نمبر چونگی پر دھرنا دے دیا۔

بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب اسلام آباد پولیس نے مظاہرین کے خلاف آپریشن کیا اور 26 نمبر چونگی پر موجود مظاہرین کو منتشر کرنے کے ساتھ ساتھ ریڈ زون اور نیشنل پریس کلب کے باہر موجود مظاہرین کے ٹینٹ بھی اکھاڑ دیے گئے جبکہ کئی افراد کو گرفتار کیا گیا۔

اسلام آباد پولیس نے کہا تھا کہ بلوچ مظاہرین کے لانگ مارچ کو وفاقی دارالحکومت کے ہائی سکیورٹی زون میں داخلے سے روکنے کے لیے ’غیر مہلک‘ طریقہ اختیار کیا گیا جبکہ کچھ گرفتاریاں بھی کی گئیں۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے مظاہرین کی گرفتاریوں پر اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا تھا، جس پر سماعت کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے انسپکٹر جنرل (آئی جی) اسلام آباد اکبر ناصر خان کو حکم دیا تھا کہ سیکٹر آئی 10 میں موجود خواتین شرکا کو لانگ مارچ کے منتظمین کے حوالے کردیا جائے۔

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے بلوچ شہریوں پر ریاستی تشدد کی پرزور مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ پرامن مظاہرین کے ساتھ ریاست کا رویہ انتہائی تشویش کا باعث ہے۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان