بلوچ مارچ، حالات خراب کرنے کے ثبوت موجود تھے: حکومت

نگران وفاقی وزیر برائے نجکاری فواد حسن فواد کے مطابق اسلام آباد کی کسی مرکزی شاہراہ پر زیادہ لوگوں کی موجودگی میں حالات خراب کرنے کے معتبر ثبوت موجود ہیں۔

اسلام آباد پولیس کا ایک اہلکار 21 دسمبر 2023 کو نیشنل پریس کلب کے سامنے لگائے جانے والے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاجی کیمپ کے مقام کا جائزہ لے رہا ہے، جو اب ختم ہو چکا ہے (انڈپینڈنٹ اردو)

نگران وفاقی وزیر برائے نجکاری فواد حسن فواد کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس معتبر ثبوت موجود ہیں کہ اسلام آباد کی کسی مرکزی شاہراہ پر زیادہ لوگوں کے جمع ہونے کی صورت میں اسے حالات خراب کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

جمعرات کی شام اسلام آباد میں دوسرے وفاقی وزرا کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فواد حسن فواد نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ گذشتہ رات بلوچستان سے آئے ہوئے احتجاج کرنے والوں کے خلاف ایکشن اسی مجبوری کے تحت اٹھایا گیا۔ 

’یہ اطلاع کسی سپیشل برانچ کے اہلکار نے بنا کر نہیں دی بلکہ یہ بالکل معتبر اطلاع تھی اور ہمارے لیے ضروری تھا کہ ایسا کوئی واقع ہونے سے روکا جائے۔‘

انہوں نے دعویٰ کیا کہ احتجاج کرنے والوں میں کچھ ایسے لوگ بھی شامل تھے جن کے چہرے ڈھکے ہوئے تھے اور ان کا تعلق بلوچستان سے آنے والے احتجاج کرنے والوں کے ساتھ نہیں تھے۔

وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ بلوچستان سے آنے والے افراد 23 روز سے ملک کے مختلف حصوں مٰں احتجاج کر رہے تھے، لیکن کہیں انہیں روکا نہیں گیا۔ 

’انہیں روکنے کا واحد مقصد تھا کہ کسی کو اس صورت حال کو استعمال کرنے کا موقع نہ دیا جائے اور اس کے معتبر خدشات اور ثبوت موجود تھے۔‘

فواد حسن فواد نے ایک دوسرے سوال کے جواب میں کہا کہ احتجاجیوں کو نیشنل پریس کلب کے علاوہ وفاقی دارالحکومت میں کسی مےبادل مقام پر دھرنا دینے کا کہا گیا لیکن اس آفر کو مانا نہیں گیا۔

فواد حسن فواد کے ساتھ پریس کانفرنس میں وفاقی وزرا مرتضیٰ سولنگی اور جمال شاہ کے علاوہ سینیئر پولیس اہلکار موجود تھے۔  

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مظاہرین کے خلاف بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب اسلام آباد پولیس کے آپریشن اور درجنوں افراد کی گرفتاریوں کے خلاف کمیٹی نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا ہے، جہاں عدالت عالیہ نے آج شام چار بجے ڈپٹی کمشنر سے جواب طلب کر رکھا ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کا یہ لانگ مارچ بلوچستان کے علاقے تربت میں مبینہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے بلوچ نوجوان کے واقعے کی جوڈیشل انکوائری اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے رواں ماہ کے آغاز میں تربت سے اسلام آباد کے لیے روانہ ہوا تھا، تاہم بدھ کی شب وفاقی دارالحکومت پہنچنے پر انہیں نیشنل پریس کلب کی جانب جانے سے روک دیا گیا، جس کے بعد مارچ کے شرکا نے موٹر وے ٹول پلازہ کے نزدیک 26 نمبر چونگی پر دھرنا دے دیا۔

بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب اسلام آباد پولیس نے مظاہرین کے خلاف آپریشن کیا اور 26 نمبر چونگی پر موجود مظاہرین کو منتشر کرنے کے ساتھ ساتھ ریڈ زون اور نیشنل پریس کلب کے باہر موجود مظاہرین کے ٹینٹ بھی اکھاڑ دیے گئے۔

انڈپینڈنٹ اردو کی نامہ نگار مونا خان کے مطابق پولیس نے مجموعی طور پر 86 کے قریب مرد اور خواتین کو گرفتار کیا، جنہیں اسلام آباد کے مختلف تھانوں میں رکھا گیا ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے مظاہرین کی گرفتاریوں پر اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا۔

اس سے قبل اسلام آباد پولیس نے کہا تھا کہ بلوچ مظاہرین کے لانگ مارچ کو وفاقی دارالحکومت کے ہائی سکیورٹی زون میں داخلے سے روکنے کے لیے ’غیر مہلک‘ طریقہ اختیار کیا گیا جبکہ کچھ گرفتاریاں بھی کی گئیں۔

 

بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب ایکس پر ایک پوسٹ میں اسلام آباد پولیس نے کہا تھا کہ ’مظاہرین کے درمیان متعدد نقاب پوش اور ڈنڈہ بردار موجود ہیں اور مظاہرین کو ہائی سکیورٹی زون میں داخلے سے روکنے کے لیے غیر مہلک طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے۔‘

بیان کے مطابق طاقت کے استعمال سے مکمل گریز کیا گیا۔

پولیس نے کہا کہ وفاقی دارالحکومت کے علاقے 26 نمبر چونگی پر بلوچ مظاہرین کی جانب سے پولیس پر پتھراؤ کیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسلام آباد پولیس کی جانب سے ایکس پر جاری ایک اور بیان میں مزید کہا گیا کہ ’ایوب چوک پر بھی مظاہرین کی طرف سے پولیس پر پتھراؤ کیا گیا جب کہ پولیس نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے متعدد مظاہرین کو گرفتار کر لیا ہے۔‘

اسلام آباد پولیس کے مطابق: ’راستہ روکنے اور سڑکیں بند کرنے والوں کے خلاف ضابطے کے مطابق قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔‘

پولیس نے عوام پر زور دیا کہ وہ کسی بھی غیر قانونی اجتماع یا پر تشدد مظاہرے کا حصہ نہ بنیں اور خواتین اور بچوں کو پر تشدد مظاہروں سے دور رکھیں۔

لانگ مارچ کے شرکا کا موقف

لانگ مارچ میں شریک ماہ رنگ بلوچ نے ایکس پر اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’ہمارے تمام مظاہرین کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور انہیں مختلف پولیس سٹیشنز میں رکھا گیا ہے۔ اس وقت وہ (پولیس) بچوں اور خواتین کو کسی اور پولیس سٹیشن لے جا رہے ہیں۔ ہم اپنے مرد ساتھیوں سے رابطہ نہیں کر پا رہے ہیں اور ہمیں ڈر ہے کہ ریاست انہیں گرفتار کر لے گی۔‘

یہ مارچ بلوچستان کے علاقے تربت میں مبینہ پولیس مقابلے میں جان سے جانے والے نوجوان کے واقعے کی جوڈیشل انکوائری اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے چھ دسمبر 2023 کو تربت سے روانہ ہوا تھا۔

لانگ مارچ کے شرکا کو پہلے اسلام آباد پولیس نے اسلام آباد ٹول پلازہ پر روکا تھا۔

ماہ رنگ بلوچ نے بتایا کہ ٹول پلازہ پر روکنے کے بعد انہیں چھوڑ دیا گیا لیکن ابھی وہ بمشکل ایک کلومیٹر کا فاصلہ طے نہیں کر پائے تھے کہ انہیں دوبارہ روک دیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ اسلام آباد میں واقع نیشنل پریس کلب جانا چاہتے ہیں لیکن پولیس نے انہیں وہاں نہیں جانے دیا، جہاں ان کے دیگر ساتھی اور صحافی انتظار کر رہے تھے۔ 

ماہ رنگ بلوچ نے بتایا کہ مارچ کے شرکا کو پولیس اہلکاروں نے ہرطرف سے گھیرے میں لے لیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کا احتجاج پر امن ہے اور مارچ کے شرکا چاہتے ہیں کہ انہیں اسلام آباد پریس کلب جانے دیا جائے۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے گذشتہ رات اسمال آباد میں لاپتہ افراد سے متعلق لانگ مارچ کے شرکا پر تشدد کی مذمت کرتے ہوئے فلسطین میں مظالم پر احتجاج کرنے والی سیاسی جماعتوں کی جانب سے بلوچستان میں ناانصافیوں پر خاموشی پر سوال اٹھیا۔

کوئٹہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وفاقی دارالحکومت میں خواتین اور بچوں کے ساتھ غیر انسانی اور غیر جمہوری رویے نے ثابت کر دیا کہ موجودہ حکومت ’انڈر ٹیکر‘ حکومت ہے۔

وفاقی دارالحکومت کے انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی سی سی پی او) ڈاکٹر اکبر ناصر خاں نے جمعرات کو میڈیا سے گفتگو میں بدھ کی رات اسلام آباد میں ہونے والے پولیس ایکشن کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ پانی کا استعمال کسی بھی طرح مہلک نہیں ہوتا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ احتجاجیوں میں خواتین اور بچے شامل نہیں تھے۔

ایکشن کی وجہ بیان کرتے ہوئے پولیس سربراہ کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں اس وقت بھی بہت سے اعلیٰ سطحی غیر ملکی وفود موجود ہیں۔

’اور کوئی بھی نہیں چاہے گا کہ آپ کی اور ہماری جانیں خطرے میں ہوں۔‘

انہوں نے کہا کہ پولیس نے چھ گھنٹے صبر کا مظاہرہ کیا اور طاقت کے استعمال سے گریز کیا گیا۔

’مظاہرین میں کچھ لوگ ایسے تھے جنہوں نے منہ چھپا رکھے تھے اور ان کے ہاتھوں میں ڈنڈے تھے۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان