جب مہنگے جوتوں نے ’مغل اعظم‘ کے منظر کو متاثر کن بنا دیا

دلیپ کمار اتنے شاہ خرچ نہ تھے کہ ایک جوتے کے لیے ہزاروں روپے پھونک دیں اور ادھر ہدایت کار کے آصف تھے جو ضد پکڑے بیٹھے تھے کہ وہ یہ جوتا نہ صرف خریدیں بلکہ اسے فلم کے منظر میں بھی استعمال کریں۔

یہ منظر فلم ’مغل اعظم‘ کی جان ہی کہا جاسکتا ہے کیونکہ اس میں شہزادہ سلیم والد سے اس بات کی التجا کرتے ہیں کہ انارکلی انہیں بخش دی جائے لیکن بادشاہ سلامت کسی صورت اس پر تیار نہیں ہوتے (سٹیرلنگ انویسٹمنٹ کارپوریشن)

دلیپ کمار نے دکان پر جوتے کو اٹھایا اور پھر اس کی قیمت دیکھ کر جھٹ وہیں رکھ دیا جہاں سے اسے اٹھایا تھا۔

دلیپ کمار کو جوتا تو بہت پسند آیا تھا لیکن اس کی ’پرائس ٹیگ‘ ہی ایسی تھی کہ دلیپ کمار کی اسے خریدنے کی ہمت نہ ہوئی۔

ہدایت کار کے آصف یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے دریافت کیا کہ ’کیا ہوا؟ کیا جوتا پسند نہیں آیا؟‘ دلیپ کمار نے جواب دیا کہ ’پسند تو آیا ہے آصف صاحب، لیکن اس کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ بہت ہی زیادہ مہنگا ہے۔‘

دونوں اس وقت لندن کے ایک جوتوں کے سٹور میں تھے۔ شہرہ آفاق فلم ’مغل اعظم‘ کی عکس بندی کا آغاز ہوچکا تھا اور اسی دوران دونوں نے انگلستان کا رخ کیا تھا، جہاں فرصت کے لمحات ملے تو کچھ خریداری کا خیال آیا۔

دلیپ کمار کو جوتا تو واقعی پسند آیا تھا لیکن اس زمانے کے اعتبار سے یہ لگ بھگ آٹھ ہزار انڈین روپے میں فروخت کیا جارہا تھا جبکہ اس وقت تک ایک بہترین قسم کا جوتا پانچ سو سے سات سو روپے میں بآسانی مل جاتا تھا۔

ہدایت کار کے آصف نے دلیپ کمار کو جواب دیا کہ ’ارے بھئی مہنگا ہے تو کیا؟ خرید لیتے ہیں۔ مغل اعظم کی عکس بندی میں کام آئے گا۔‘

دلیپ کمار نے حیرت سے دریافت کیا: ’مغل اعظم میں کام آئے گا؟ کیا بات کرتے ہیں؟‘

کے آصف کے چہرے پر ابھی تک مسکراہٹ کا بسیرا تھا۔ وہ انڈیا جا کر اپنی فلم کا وہ منظر عکس بند کرنے والے تھے جس میں شہزادہ سلیم یعنی دلیپ کمار، والد شہنشاہ اکبر کو انار کلی کے حصول کے لیے چیلنج کرتا ہے۔ دونوں کے درمیان گرما گرم جذباتی مکالمات کا مقابلہ ہوتا۔

ہدایت کار کے آصف ان دنوں اسی منظر کی سوچ بچار میں مصروف تھے۔

کے آصف اصرار کر رہے تھے کہ دلیپ کمار یہ مہنگا جوتا ضرور خریدیں اور متعلقہ منظر میں اسے پہن کر جب آئیں گے تو یہ منظر اور زیادہ جان دار ہو جائے گا۔ دلیپ کمار نے پلٹ کر یہ کہا: ’آصف صاحب اس منظر میں تو صرف چہرے اور پھر کمر تک کا کیمرا رہے گا، اس جوتے کا بھلا کیا کام؟‘

کے آصف نے دلیپ کمار کو کوئی جواب نہیں دیا بلکہ اس جوتے کی طرف بغور دیکھ رہے تھے جو دلیپ کمارکو پسند تو آیا تھا لیکن بات قیمت پر جا کر رک گئی تھی۔

دلیپ کمار اپنی جیب دیکھ کر اس جوتے کو خریدنے میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہے تھے اور نہ ہی وہ اتنے شاہ خرچ تھے کہ ایک جوتے کے لیے ہزاروں روپے پھونک دیں اور ادھر کے آصف تھے جو ضد پکڑے بیٹھے تھے کہ وہ یہ جوتا نہ صرف خریدیں بلکہ وہ تو دو قدم اور آگے بڑھ کر یہ فرمارہے تھے کہ اسے فلم کے منظر میں استعمال کریں گے۔

دلیپ کمار نے کے آصف پر واضح کردیا کہ وہ یہ مہنگا جوتا ہرگز نہیں خریدیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اب ہدایت کار کے آصف دلیپ کمار کے قریب آئے اور شفقت اور اپنائیت کے ساتھ ان کے رخسار پر ہلکی سی تھپکی دیتے ہوئے بولے کہ ’تم نہیں سمجھو گے۔ مجھے اس جوتے کا شاٹ ہرگز نہیں لینا، لیکن جب اتنا مہنگا جوتا پہن کر تم چلو گے تو تمہارے چہرے اور چال میں جو رباب، وقار اور اور احساس برتری ہوگی، وہی دراصل مجھے کیمرے کی آنکھ میں  قید کرنا ہے۔

’پھر سب سے بڑھ کر تم بادشاہ سلامت یعنی اکبر بادشاہ سے لفظوں کی جنگ کرنے جا رہے ہو تو تمہاری شان و شوکت تمہارے کردار اور انداز سے جھلکنی چاہیے۔‘

ہدایت کار کے آصف خاموش ہوئے تو دلیپ کمار کو احساس ہوا کہ واقعی بات تو وہ درست ہی کہہ رہے ہیں۔ ان کے منظرمیں بظاہر تو جوتے نہیں دکھائے جائیں گے لیکن اس قدر قیمتی جوتے پہننے کے بعد ان کی چال اور انداز میں یقینی طور پر فرق پڑے گا اور یوں وہ کے آصف کی بات ماننے اور جوتا خریدنے پر آمادہ ہوئے۔

اور پھر مقررہ دن میں جب وہ تاریخی منظر عکس بند ہوا، جس میں شہزادہ سلیم اور اکبر بادشاہ آمنے سامنے تھے تو لگ بھگ دو منٹ کے اس منظر میں دلیپ کمار جہاں مخصوص شاہی لباس زیب تن کیے ہوئے تھے، وہیں وہ مہنگا جوتا بھی جو انہوں نے انگلستان سے خریدا تھا۔

اکبر بادشاہ کے مقابل شہزادہ سلیم کے چہرے کے تاثرات میں رعب، دبدبہ اور پروقار انداز غیر معمولی رہا۔

یہ منظر فلم کی جان ہی کہا جاسکتا ہے کیونکہ اس میں شہزادہ سلیم والد سے اس بات کی التجا کرتا ہے کہ انارکلی اسے بخش دی جائے لیکن بادشاہ سلامت کسی صورت اس پر تیار نہیں ہوتے۔

یہاں اکبر بادشاہ مشہور مکالمہ ادا کرتے ہیں کہ ’ہم اپنے بیٹے کے دھڑکتے ہوئے دل کے لیے ہندوستان کی تقدیر نہیں بدل سکتے۔‘ جس کے جواب میں شہزادہ سلیم کا مکالمہ بھی تاریخی بن جاتا ہے۔ جو والد کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتے ہیں کہ ’تقدیریں بدل جاتی ہیں، زمانہ بدل جاتا ہے، ملکوں کی تاریخ بدل جاتی ہے، شہنشاہ بدل جاتے ہیں، مگر اس بدلتی ہوئی دنیا میں محبت جس انسان کا دامن تھام لیتی ہے، وہ انسان نہیں بدلتا۔‘

دلیپ کمار اور پرتھوی راج کے درمیان ہونے والی اس مکالمہ بازی کو ’کلیش آف دا ٹائی ٹینز‘ کے نام سے شناخت کیا جاتا ہے۔

اب یہ کے آصف کی دوراندیشی اور جوہر شناس سوچ ہی تھی، جنہوں نے مہنگے جوتے خریدنے پر اصرار کرکے دلیپ کمار کے انداز مخاطب میں بلا کا اعتماد اور پروقار روپ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔

اس معمولی سے واقعے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہدایت کار کے آصف نے اپنی تخلیق ’مغل اعظم‘ کو کلاسک اور عظیم بنانے کے لیے کس قدر عرق ریزی سے کام کیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ فلم کی نمائش کو لگ بھگ 63 برس ہوگئے لیکن آج بھی اس جیسی ہدایت کاری، اداکاری اور مکالمہ نگاری کے ساتھ ساتھ موسیقی اور گلوکاری کا کوئی دوسرا شاہکار مغل اعظم کی جگہ نہیں لے سکا۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ