سموگ: پنجاب میں سائیکل شیئرنگ، الیکٹرک بائیکس لانے کا فیصلہ

پنجاب حکومت سموگ سے نمٹنے کے لیے دو نئے منصوبے لا رہی ہے، جن میں سے ایک سائیکل شیئرنگ اور دوسرا طالب علموں کو بلاسود قرضے پر 10 ہزار الیکٹرک موٹر سائیکلیں دینے کا منصوبہ شامل ہے۔

18 دسمبر 2023 کی اس تصویر میں لاہور کی ایک سڑک پر ٹریفک رواں دواں ہے جبکہ فضا پر سموگ چھائی ہوئی ہے (اے ایف پی)

پنجاب حکومت گذشتہ کچھ عرصے سے صوبے خاص طور پر دارالحکومت لاہور پر چھائی سموگ سے نمٹنے کے لیے مختلف حربے آزما رہی ہے۔

کہیں مصنوعی بارش، کہیں سڑکوں کی دھلائی، کہیں کھیتوں کو آگ لگا کر آلودگی پھیلانے والوں کے لیے جرمانے تو کہیں بھٹوں کو چلانے کے نئے نئے طریقے آزمائے جا رہے ہیں لیکن اب تک سموگ سے جان نہیں چھوٹ پائی ہے۔

جمعرات کو اس رپورٹ کی اشاعت کے وقت ’آئی کیو ایئر‘ کی ویب سائٹ پر دیے گئے ایئر کوالٹی انڈیکس کے مطابق لاہور 328 اے کیو آئی کے ساتھ (یہ اے کیو آئی ہر ایک گھنٹے کے بعد تبدیل ہوتا ہے) دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں پہلے نمبر پر تھا۔

پنجاب حکومت سموگ سے نمٹنے اور شہریوں کی صحت کو مزید بہتر بنانے کے لیے اب دو نئے منصوبے لا رہی ہے، جس میں سب سے پہلے حکومت نے سائیکل شیئرنگ متعارف کروانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں پنجاب انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی بورڈ (پی آئی ٹی بی) سے مدد مانگی ہے۔

نگران صوبائی وزیر برائے ٹرانسپورٹ ابراہیم حسن مراد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا: ’دراصل سائیکل شیئرنگ منصوبے کا مقصد یہ ہے کہ پنجاب کے اندر عوام کو فٹنس کی طرف راغب کیا جائے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ سائیکلنگ کا یہ فائدہ ہو گا کہ جب لوگ سائیکل چلائیں گے تو کسی قسم کی آلودگی پیدا نہیں ہوگی۔

’یہ بہت اہم منصوبہ ہے کہ عوام صحت مند بھی ہوں اور ان کا یہ عمل ماحول دوست بھی بنے۔‘

ابراہیم حسن مراد نے منصوبے کے حوالے سے بتایا کہ ’اس میں مختلف سائیکل سٹینڈ لگائیں گے، جس میں پانچ سے 10 سائیکلیں ایک سٹینڈ پر ہوں گی اور فی الحال بطور پائلٹ پراجیکٹ یہ پورے لاہور شہر میں شروع ہوگا۔ آپ سٹینڈ پر آئیں گے، ایک ایپلی کیشن کے ذریعے سائیکل لیں گے اور اسی پر اپنی منزل تک پہنچیں گے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ ایک سٹیٹ آف دی آرٹ نیٹ ورک ہوگا۔ دنیا کے بڑے بڑے شہر جیسے لندن اور نیویارک وغیرہ میں بھی اسی طرح ہوتا ہے، اس لیے ہم بھی اسی طرز پر یہ منصوبہ متعارف کروا رہے ہیں۔‘

سائیکل شیئرنگ کے لیے بنائی جانے والی ایپلی کیشن کے حوالے سے پی آئی ٹی بی کے چیئرمین فیصل یوسف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حکومت پنجاب کی ہدایت پر پنجاب آئی ٹی بورڈ ایک موبائل ایپ تیار کرے گا، جس سے نہ صرف سائیکلنگ کو فروغ ملے گا بلکہ شہریوں کی صحت میں بہتری لانے اور فضائی آلودگی میں کمی میں بھی بہت مدد ملے گی۔

چیئرمین پی آئی ٹی بی کا کہنا تھا کہ جن شہریوں کے پاس اپنی سائیکل موجود ہے، انہیں ایک ’بار کوڈ‘ ملے گا جسے وہ اپنی سائیکل پر لگائیں گے اور اس بار کوڈ کو سکین کر کے وہ سائیکل چلانا شروع کریں گے۔

’جب وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچیں گے تو ان کا دورانیہ یعنی طے کردہ فاصلہ اس ایپ کے ذریعے ریکارڈ ہو جائے گا اور اس موبائل ایپ کے ذریعے ان کے اکاؤنٹ میں کچھ پوائنٹس بھی جمع ہو جائیں گے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’شہری جتنی زیادہ سائیکل چلائیں گے اتنے زیادہ کلومیٹر کے مطابق ان کے پوائنٹس ان کے اکاؤنٹ میں جمع ہوتے جائیں گے، جن کے بدلے وہ مختلف ریستورانوں وغیرہ میں 10 فیصد یا اس سے زیادہ کا ڈسکاؤنٹ حاصل کر سکیں گے۔‘

فیصل یوسف نے یہ بھی بتایا کہ ’اسی طرح شہر میں مختلف مقامات پر سائیکلنگ سٹیشن بنائے جائیں گے، جہاں سائیکل اور الیکٹرک سائیکل یا سکوٹیز کرائے پر دستیاب ہوں گی۔ خواتین کے لیے بھی الیکٹرک سکوٹیز موجود ہوں گی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ شہری سائیکل یا الیکٹرک سکوٹی چلانے کی فیس موبائل کیش سروسز وغیرہ کے ذریعے آن لائن ادا کر سکیں گے اور ان ڈاکنگ سٹیشنز پر مختلف کمپنیاں اپنی سائیکلیں یا سکوٹی کھڑی کر سکیں گی۔

اس کے علاوہ یہ تجویز بھی زیر غور ہے کہ بعد ازاں شہری بھی ان ڈاکنگ سٹیشنز پر اپنی سائیکلیں کھڑی کر سکیں گے۔

صوبائی حکومت نے یہ منصوبہ تو بنا لیا ہے، لیکن اس پر عملدرآمد کے حوالے سے شہری کچھ کشکمش کا شکار ہیں۔

ایک نجی کالج کے لیکچرار بلال سندھو نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’ہمارے پاس کوئی روڈ پلان نہیں ہے، ٹریفک کا دباؤ اتنا زیادہ ہے کہ کوئی سائیکل لین نہیں ہے تو ہم سائیکلیں کہاں چلائیں گے۔ میرے خیال میں اس سے حادثات میں اضافہ ہونے کا خدشہ بڑھ جائے گا۔‘

محمد ہمائیوں، جو ایک نجی دفتر میں بحیثیت آفس بوائے کام کرتے ہیں، کے مطابق یہ ایک اچھا اقدام ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’آپ لوگوں کو کوئی پرکشش آفر کریں گے تو وہ اس کام میں آئیں گے۔ میں تو ضرور سائیکل چلاؤں گا تاکہ مجھے زیادہ سے زیادہ پوائنٹس ملیں اور میں ڈسکاؤنٹ حاصل کر سکوں۔‘

لاہور کے رہائشی طالب علم حامد خان کے خیال میں بھی سائیکل شیئرنگ خاص طور پر طالب علموں کے لیے ایک اچھا قدم ہو گا، لیکن ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ’اب ٹیکنالوجی بہت جدت اختیار کر گئی ہے، اس لیے اگر حکومت الیکٹرک موٹر سائیکل یا رکشے متعارف کروائے تو وہ بھی آلودگی کو کم کرنے میں مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حامد خان اور ان جیسے دیگر طالب علموں کے لیے خوش خبری یہ ہے کہ پنجاب حکومت سائیکل شیئرنگ کے علاوہ الیکٹرک موٹر سائیکل کی سکیم بھی شروع کرنے جا رہی ہے۔

نگراں صوبائی وزیر برائے ماحولیات اور پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ بلال افضل نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہم طالب علموں کو 10 ہزار الیکٹرک موٹر سائیکلیں دینے کا منصوبہ بنا رہے ہیں لیکن اس میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ یہ موٹر سائیکلیں مہنگی ہیں، اسی لیے ہم یہ سکیم طالب علموں کے لیے لا رہے ہیں جس میں ہم طالب علموں کو بلاسود قرضے دیں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یہ الیکٹرک بائیک حاصل کرنے کے لیے ہم نے طالب علموں کے لیے بہت  بنیادی قسم کا طریقہ کار رکھا ہے۔ ’اگر آپ طالب علم ہیں اور آپ نے الیکٹرک بائیک لینی ہے تو پی آئی ٹی بی کی جانب سے بنائی گئی ایک ایپلی کیشن ہوگی جس پر آپ آن لائن بائیک لینے کی درخواست کریں گے، جس کے بعد آپ کا ریکارڈ چیک کیا جائے گا کہ کیا آپ ایچ ای سی سے منظور کردہ ادارے سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور کیا آپ کے پاس لائسنس ہے؟‘

بلال افضل کے بقول اس سکیم میں 30 فیصد الیکٹرک موٹر سائیکلیں یا سکوٹیز طالبات کو دی جائیں گی اور پانچ فیصد کوٹہ جسمانی معذور افراد کے لیے ہوگا کیونکہ کچھ الیکٹرک موٹر سائیکلیں تین پہیوں والی بھی ہوتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس منصوبے میں طالب علم موٹر سائیکل کی 30 فیصد قیمت ابتدائی طور پر ادا کریں گے جبکہ اس کی ماہانہ قسط جو پانچ یا چھ ہزار روہے بنتی ہے، وہ دو سال تک ادا کرنا ہوگی۔

بقول بلال افضل: ’10 ہزار موٹر سائیکلیں دینے کا مقصد یہ بھی ہے کہ ہم ایک مارکیٹ بنا رہے ہیں تاکہ عوام خود الیکٹرک موٹر سائیکلوں کی طرف جانا شروع ہوں۔

’ابھی تک مارکیٹ میں الیکٹرک بائیکس کے جو ماڈلز موجود ہیں وہ دوسری موٹر سائیکلوں سے مہنگے ہیں، اس لیے ہم اسے فنانشل پراڈکٹ کے طور پر لا رہے ہیں جو ممکنہ طور پر بینک آف پنجاب کی پیش کش ہو گی۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’ہم نے طلبہ کا انتخاب اس لیے کیا کیونکہ ہم اس منصوبے کو کسی ایک جگہ متعارف کروانا چاہ رہے تھے اور ہمیں لگتا ہے کہ طالب علم نہ صرف کسی چیز کے بارے میں رائے بنانے والے (Opinion Makers) ہوتے ہیں بلکہ وہ رائے تبدیل کرنے والے (Opinion Changers) بھی ہوتے ہیں۔ طالب علموں کو الیکٹرک موٹرسائیکلوں کی جانب آسانی سے لایا جا سکتا ہے۔‘

بلال افضل نے امید ظاہر کی کہ اس منصوبے کی اجازت رواں ہفتے ہی وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی دے دیں گے اور ایک مہینے کے اندر ہم یہ پروگرام باقاعدہ شروع کردیں گے، جس میں طالب علموں کو بلاسود قرضے پر 10 ہزار الیکٹرک موٹر سائیکلیں دی جائیں گی۔

سموگ کے تدارک کے لیے نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے سموگ کے بڑھنے کی وجوہات جاننے کے لیے چین سے بھی ماہرین ماحولیات کی ایک خصوصی ٹیم کو دعوت دی ہے، جو اگلے ہفتے لاہور پہنچے گی۔ 

بقول محسن نقوی: ’افسوس کی بات ہے کہ ہمارے پاس سموگ بڑھنے کی وجوہات سامنے لانے کے لیے کوئی مستند ریسرچ ہی نہیں اور ہم صرف سنی سنائی باتوں اور قیاس آرائیوں کے ذریعے سموگ پر قابو نہیں پا سکتے۔‘

مصنوعی بارش کا کیا فائدہ ہوا؟

رواں ماہ کے وسط میں سموگ کے خاتمے کے لیے لاہور میں مصنوعی بارش بھی کروائی گئی تھی، اس حوالے سے نگراں وزیر برائے ماحولیات بلال افضل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’مصنوعی بارش اب تک ہم نے ایک بار کروائی ہے، اس سے اے کیو آئی کم ہوا تھا۔‘

تاہم انہوں نے کہا کہ مصنوعی بارش سے سموگ کا مسئلہ دو سے تین دن تک حل ہو جاتا ہے لیکن جب تک سموگ پیدا کرنے والے ذرائع، جس میں سب سے زیادہ حصہ ٹرانسپورٹ کا ہے، کو کنٹرول نہیں کیا جائے گا تب تک سموگ پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔

بقول بلال افضل: ’اس وقت ہمارے پاس متحدہ ارب امارات کی ٹیم آئی ہوئی تھی، وہ یہیں ہے۔ ایک دو دن میں بادل بننے کے امکانات تھے لیکن وہ بہت اونچائی پر ہوں گے۔ اگر ہمیں بادلوں کی اونچائی اور فضا میں نمی کی سطح مرضی کے مطابق ملے تب بھی مصنوعی بارش کا امکان 30 سے 40 فیصد سے زیادہ نہیں ہوتا۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’رواں ہفتے ہم لاہور یا اس کے گردو نواح میں ایسا کچھ نہیں دیکھ رہے کہ کوئی ایسے بادل بنیں گے کہ ہم مصنوعی بارش پھر سے برسا سکیں گے، لیکن ٹیم یہیں ہے اور جب بھی ہمیں موقع ملا، ہم پھر مصنوعی بارش کروا دیں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان