راولپنڈی ریلوے سٹیشن کے باہر ایک تناور درخت کے عقب میں واقع ’لکھ پتی رہائش گاہ‘ قیام پاکستان سے قبل قائم ہونے والی ایک سرائے ہے۔
یہ سرائے ریلوے سٹیشن پر آئے ہوئے تھکے ماندے مسافروں کی شب بسری کا سامان مہیا کرتی ہے۔
اس تاریخی ریلوے سٹیشن پر کبھی بہت ساری سرائے ہوا کرتی تھیں مگر بدلتے وقت کے ساتھ اب لکھ پتی رہائش گاہ ہی واحد ایسی سرائے ہے، جو مسافروں کو مناسب رہائش کی پیشکش کرتی ہے جب کہ یہاں قائم باقی سرائے عالیشان ہوٹلوں یا دیگر کاروباری عمارتوں میں تبدیل ہو گئی ہیں۔
دو دہائیاں قبل اپنے والد سے اس سرائے کی ذمہ داری سنبھالنے والے محمد سعد بتاتے ہیں کہ ان کے خاندان کے پاس اس سرائے کی ملکیت پاکستان کے وجود میں آنے سے پہلے کی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ سرائے کے برآمدے میں چارپائیاں ایک دوسرے کے ساتھ قطار میں لگی ہوئی ہوتی ہیں جب کہ مرکزی حصے میں کھلی ہوا کا انتظام ہے، جس کے ساتھ ملحقہ شیڈ 10 سے 15 بستروں پر مشتمل ہے۔ ایک پیڈسٹل پنکھا چار سے پانچ بستروں کے درمیان کام کرتا ہے۔
سعد کہتے ہیں کہ گرمیوں میں یہی معمول ہے جب کہ موسم سرما میں وہ مسافروں کو کمبل اور رضائیاں فراہم کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ جب انہوں نے اپنے والد کے ساتھ سرائے پر کام شروع کیا تو زیادہ سرائے ہونے کے سبب باقاعدہ مسافروں کو ٹرین سٹیشن سے بارگین کر کے لایا جاتا تھا مگر اب چونکہ تمام سرائے پرتعیش ہوٹلوں، سپر سٹورز اور مارکیٹوں میں تبدیل ہو چکے ہیں تو غریب مسافر مہنگائی کے اس دور میں رات گزارنے کے لیے ان کے سرائے کا ہی رخ کرتے ہیں جہاں وہ رش کے باعث قطار بناتے ہیں اور اپنی باری پر چارپائی اور بستر حاصل کرتے ہیں۔
سعد نے بتایا کہ 20 سال پہلے چارپائی اور بستر کا کرایہ 60 روپے تھا، جو اب 150 روپے ہے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔