انتخابات ریل ریل میں: ’اس مرتبہ لاہور میں سائلنٹ الیکشن ہیں‘

الیکشن 2024 کے سلسلے میں شروع کیا جانے والا انڈپینڈنٹ اردو کا سلسلہ ’ریل ریل میں‘ کی یہ چوتھی قسط ہے، جس میں ہم پاکستان کے دل لاہور پہنچے اور آئندہ ماہ ہونے والے انتخابات سے متعلق لاہوریوں کی آرا جانیں۔

الیکشن الیکشن کرتے میں اور سہیل بھائی لاہور سٹیشن پر اترے تو دھوپ دیکھ کے ہم دونوں کے خشک چہروں پر مسکراہٹ اور آنکھوں میں تازگی آ گئی۔

ہم دونوں کو لگا کہ زندگی چانس دے رہی ہے، کام بہتر طریقے سے ہو جائے گا۔ اللہ کا نام لیا اور شہر لاہور کو نکلنے لگے تاکہ آج کے موضوع پر لوگوں کی رائے جان سکیں لیکن پہلے سٹیشن کی بات کر لیں، اس کے بغیر آگے جانا سمجھ نہیں آتا!

لاہور ریلوے سٹیشن کی عمارت ایسی پرشکوہ ہے کہ اسے دیکھ کر بھوانی جنکشن قسم کی فلم دوبارہ شوٹ کرنے کا دل چاہتا ہے۔

اس عمارت کی ہیبت تلے کئی کہانیاں دفن ہیں جن میں سے ایک سلطان ٹھیکیدار کی ہے۔

محمد سلطان انگریزوں کو پرانی اینٹ کی سپلائی کرنے کے لیے شہرت رکھتے تھے۔ یہ بات 1857 کی ہو رہی ہے، جب کہ 1677 میں انگلینڈ اپنا پہلا میوزیم بنا چکا تھا۔ کیا اس وقت کسی نے یہ سوال نہیں کیا ہو گا کہ سلطان صاحب یہ پرانی اینٹیں لاتے کدھر سے ہیں؟

لسے دا کی زور محمد، نس جانا یا رونا ۔۔۔ تو بس کہانی یہی ہے کہ تب بھی ہم لسے (کمزور) ہی تھے، سوال کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے، ٹھیکہ سلطان صاحب کو دے دیا گیا۔

لاہور سٹیشن کی تعمیر میں انہوں نے شہر بھر کی پرانی عمارتوں کو رج کے برباد کیا، داراشکوہ کے محل کی بنیادیں تک کھود ڈالیں، جہاں سے پرانی مضبوط اینٹ ملی، انہوں نے دستیاب کرائی اور عمارت اٹھتی رہی۔ سٹیشن بنا تو شہر کی لاتعداد عمارتیں کام آ چکی تھیں۔

گوروں نے اسے دفاعی نکتہ نظر سے بنایا تھا تاکہ کسی اچانک حملے کی صورت میں یہاں مورچہ بندی کی جا سکے، اسی لیے قلعے نما شکل ہے اور کئی برج ہیں کہ جہاں سے دشمن پر شست باندھی جا سکتی ہے۔

اس کے بعد پٹری کی باری آئی تو ہڑپہ کے کھنڈروں میں اجاڑا پڑا، ادھر سے اچھی خاصی کھدائی کی گئی اور لاہور سے ملتان تک ٹریک بنایا گیا۔ پٹری کے بیچ میں جو لکڑی کو سلیپر کہتے ہیں، سلیپروں کے بالے پورے پورے درختوں کی شکل میں کشمیر سے منگوائے گئے ۔۔۔ سوچیں ۔۔۔ یہ سموگ آج سے نہیں پڑی، اس کی بنیاد گورے اپنے زمانوں میں رکھ چکے تھے، کتنے درخت لگے ہوں گے اس 208 میل لمبے ٹریک پر؟

خیر، پہلی ٹرین لاہور سٹیشن سے امرتسر کو روانہ کی گئی جس کا سن 1860 بتایا جاتا ہے۔

تین کتابیں ہیں، پڑھ لیں، ریل کی ساری تاریخ پانی ہو جائے گی۔ اس پورے سفر میں جو کچھ میں لکھ رہا ہوں اس کا ماخذ بھی یہی ہیں۔

  • ریل کہانی- رضا علی عابدی
  • روداد ریل کی- فضل الرحمن قاضی
  • ریل کی سیٹی- حسن معراج

اب یہ تینوں کتابیں اسی کو دستیاب ہیں جو پڑھ سکتا ہے۔ پڑھنے لکھنے سے متعلق ہی آج کا ہمارا موضوع ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پہلے ہم لوگ مینار پاکستان اور اس سے ملحقہ علاقوں میں گئے، ادھر عوام سے رائے لی کہ ایسی کون سی جماعت ہے جسے مینڈیٹ دینے کی صورت میں انہیں لگتا ہے کہ پاکستان میں تعلیمی سہولیات بہتر ہو سکتی ہیں۔ وہاں سے ہم ناصر باغ گئے کہ جو لاہور کا اہم ترین سیاسی چوپال ہوا کرتا تھا۔ اس کے بعد ملتان کی گاڑی پکڑنے کے لیے واپس سٹیشن کا رخ کیا تو ادھر مسافروں سے بھی اسی موضوع پہ صاحب سلامت کر لی۔

کُل ملا کے صورت حال یہ تھی کہ سوال گندم جواب چنا تھا۔ اکثریت نے سوال کا جواب گھما پھرا کے عمران خان پہ ختم کیا، بعض جوشیلے دوستوں نے تو نعرے بھی لگائے، لیکن یہ سارا جوش و خروش بس نوجوانوں تک ہی تھا، باقی پورے لاہور میں سنج مچا پڑا ہے اور مرزا یار ٹاپتا پھر رہا ہے۔

اس دفعہ سب سے جاندار تبصرہ ندیم خان صاحب کا تھا جو سٹیشن سے لے کر ہمیں آگے چھوڑنے گئے، وہ آف کیمرہ تھے، ان سے پوچھا کہ ’سر جی، کوئی گہماگہمی نہیں، پوسٹر بھی ٹاواں ٹاواں ہیں، راتوں والی کارنر میٹنگیں بھی خالی ہیں، رونق میلہ کہاں ہے؟ لاہور میں الیکشن کی تیاریاں ہو کدھر رہی ہیں؟

ان کا جواب تھا ’اس مرتبہ لاہور میں سائلنٹ الیکشن ہو رہے ہیں۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست