استغاثہ نے سزائے موت کا مطالبہ کیا تو عمران ہنس پڑے: علیمہ خان

علیمہ خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ عمران خان کو جیل میں لکھنے کے لیے کوئی سہولت نہیں دی گئی نہ ہی ان کی لکھی تحریر باہر لے جانے کی اجازت ہے۔

بانی پی ٹی آئی عمران خان کی بہن حلیمہ خان 28 جنوری 2024 کو انڈپینڈنٹ اردو کو انٹریو دیتے ہوئے(تصویر: انڈپینڈنٹ اردو)

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کی بہن علیمہ خان نے بتایا ہے کہ امریکی سائفر کیس میں جب پراسیکوشن یعنی استغاثہ کی جانب سے سزائے موت کا مطالبہ کیا گیا تو عمران خان ہنس پڑے۔

بانی پی ٹی آئی عمران خان پانچ اگست 2023 سے قید ہیں اور اس وقت ان کے خلاف سائفر کیس، توشہ خانہ کیس اور القادر ٹرسٹ سمیت دیگر مقدمات درج ہیں جن پر جیل کے اندر ہی مقدمہ چل رہا ہے۔

عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اکتوبر، نومبر میں پراسیکوٹر کا جو اسسٹنٹ تھا اسے جج صاحب نے عمران خان کا وکیل بنا دیا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جسے وکیل مقرر کیا گیا تھا اس کی مدد جج صاحب اور پراسیکوٹر کر رہے تھے کیوں اسے معلوم ہی نہیں تھا کہ فائل ہے کیا؟‘

علیمہ خان بتایا کہ پراسیکوٹر نے سائفر کیس میں عمران خان کے لیے کیپیٹل پنشمنٹ (سزائے موت) مانگی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ ’سماعت کے دوران ہی جب پراسیکوشن کی جانب سے سزائے موت کا مطالبہ کیا تو عمران خان نے ہنسنا شروع کر دیا اور کہا کہ اس سے بڑا مذاق میں نے نہیں دیکھا۔‘

علیمہ خان نے بتایا کہ سائفر کیس میں جب گواہاں اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہیں تو عمران خان اور شاہ محمود قریشی ساتھ ہی کھڑے ہوتے ہیں۔

علیمہ خان کا کہنا تھا کہ عمران خان کا خیال ہے کہ ان کے سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان نے جو بیان دیا ہے وہ درست دیا ہے۔

ذرائع ابلاغ میں سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق سائفر سے متعلق مقدمے میں اعظم خان نے عدالت میں اپنے بیان میں کہا ہے کہ انہیں سیکریٹری خارجہ نے کال کر کے سائفر ٹیلی گرام سے متعلق بتایا لیکن جب وہ وزیراعظم کو اس متعلق بتانے گئے تو انہیں معلوم ہوا کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پہلے عمران خان سے سائفر پر بات کر چکے تھے۔

اعظم خان کے مطابق مارچ 2022 میں ان کے سٹاف نے انہیں امریکی سائفر کی کاپی فراہم کی جو انہوں نے اگلے ہی دن وزیر اعظم کو دی جو انہوں نے اپنے پاس رکھ لی لیکن بعد میں وزیر اعظم نے بتایا کہ سائفر کی کاپی گم ہو گئی ہے۔

علیمہ حان نے کہا کہ ’سابق پرنسپل سیکریٹری نے بتایا کہ سائفر میں پاکستان کے سفیر کا امریکہ میں ملاقاتوں کا ذکر تھا ان کے بقول وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ امریکی حکام نے سائفر بھیج کر پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی اور عمران خان کو لگتا تھا یہ میسج اندرونی ایکٹرز  (کرداروں) کے لیے ہے کہ عمران خان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی جائے۔‘

علیمہ خان کے مطابق: ’اعظم خان نے بتایا کہ سائفر کی ماسٹر کاپی وزارت خارجہ کے پاس موجود ہے انہوں نے بتایا کہ ان کے چارج چھوڑنے تک سائفر کی کاپی دفتر خارجہ واپس نہیں بھجوائی گئی تھی، روایت کے مطابق سائفر کاپی واپس وزارت خارجہ کو بھجوائی جاتی ہے لیکن اس معاملے میں ایسے نہیں کیا گیا تھا، کاپی واپس نہ بھجوانے پر انہوں نے وزیراعظم اور ان کے ملٹری سیکریٹری کو متعدد بار آگاہ بھی کیا۔‘

کیوں کہ اعظم خان کے عدالت کے سامنے بیان کی مصدقہ کاپی میڈیا کو دستیاب نہیں اس لیے ذرائع ابلاغ میں سامنے آنے والی تفصیلات کی تصدیق ممکن نہیں۔

عمران خان کو جیل میں کیا سہولیات میسر ہیں؟

علیمہ خان نے بتایا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کو ’اے‘ یا ’بی‘ کلاس میں نہیں بلکہ چکی یعنی ایک چھوٹے سیل میں رکھا گیا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ عمران خان سے اگر یہ پوچھیں کہ ان کا سیل کتنا بڑا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ’کبھی انہیں کوئی چیز زیادہ دے دیں تو وہ کہتے ہیں ابھی ٹھہرو پہلے میں کتابیں نکال دوں کیوں کہ میرے پاس اتنی جگہ نہیں کہ اور کتابیں رکھ سکوں اور کپڑے بھی رکھوں۔‘

علیمہ خان نے بتایا کہ ان کے سیل میں ایک گدا، ایک رضائی اور ٹی وی موجود ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جج صاحب نے جیل کا دورہ کیا تو عمران خان نے درخواست کی کہ انہیں کم از کم دو نیوز چینل دیکھنے کی اجازت دی جائے۔

علیمہ خان نے مزید بتایا کہ عمران خان نے کہا کہ’سیل میں 12 چینلز فراہم کیے گئے ہیں جن میں ایک پی ٹی وی ہے او 11 انٹرنینمنٹ کے ہیں جو میں نہیں دیکھتا۔‘

کھانے کے حوالے سے علیمہ خان نے بتایا کہ جیل میں قیدیوں کو ایک وقت مرغی دی جاتی ہے لیکن کیوں کہ عمران خان برائلر مرغی نہیں کھاتے اس لیے ہفتے میں دو بار انہیں دیسی مرغی دی جاتی ہے۔

عمران خان کی بہن نے بتایا کہ عمران خان کو جیل میں لکھنے کے لیے کوئی سہولت نہیں دی گئی نہ ہی ان کی لکھی تحریر باہر لے جانے کی اجازت ہے۔

علیمہ کا کہنا تھا کہ عمران خان کو دستخط شدہ کاغذ بھی باہر لے جانے کی اجازت نہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’جب عمران خان نے کچھ امیداروں کو ٹکٹ دینے کی بات کی تو گوہر خان نے درخواست کی کہ آپ دستخط کر دیں تا کہ پارٹی کو بتا سکوں تو پہلے جیل انتظامیہ نے ان کا دستخط مٹا دیا اور پھر وہ کاغذ ہی لے لیا۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست