این ایچ ایس سکینڈل، ذہنی مریضوں پر ’جنسی حملوں‘ کا انکشاف

نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ این ایچ ایس ٹرسٹ زیادہ تر واقعات کی اطلاع پولیس کو دینے میں ناکام رہی اور برطانیہ کے سب سے کمزور مریضوں کو جنسی نقصان سے بچانے کے لیے بنائے گئے اہم معیارات پر پورا نہیں اتر رہی۔

10 جنوری 2024 کو لندن میں نیشنل ہیلتھ سروسز (این ایچ ایس) کا لوگو دیکھا جاسکتا ہے (اے ایف پی/ایڈرین ڈینس)

برطانوی نیشنل ہیلتھ سسٹم (این ایچ ایس) کے زیر انتظام دماغی صحت کے ہسپتالوں میں نفسیاتی وارڈز کے اندر مریضوں کے جنسی استحصال کا ’قومی سکینڈل‘ سامنے آ سکتا ہے کیونکہ ہزاروں جنسی حملے اور واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔

دی انڈپینڈنٹ اور سکائی نیوز کی مشترکہ تحقیقات اور پوڈ کاسٹ میں سامنے آنے والے خصوصی اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ پانچ برسوں میں این ایچ ایس کے آدھے سے زیادہ دماغی صحت ٹرسٹوں میں جنسی واقعات کی تقریبا 20 ہزار رپورٹیں سامنے آئی ہیں۔

ہسپتال میں جنسی زیادتی کے بعد ایک خاتون کے فرار کی ڈرامائی کہانی ایک پوڈ کاسٹ، مریض 11، میں آنے کے بعد چونکا دینے والے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ این ایچ ایس ٹرسٹ زیادہ تر واقعات کی اطلاع پولیس کو دینے میں ناکام رہی اور برطانیہ کے سب سے کمزور مریضوں کو جنسی نقصان سے بچانے کے لیے بنائے گئے اہم معیارات پر پورا نہیں اتر رہی۔

18  ماہ تک جاری رہنے والی تحقیقات کے دوران متعدد مریضوں اور ان کے اہل خانہ نے دی انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے ذہنی صحت کے یونٹوں میں گزارے اپنے وقت کے دوران جنسی زیادتی اور بدسلوکی کی کہانیوں کے بارے میں بتایا۔

34 سالہ ریوکا گرانٹ کو این ایچ ایس کے عملے کے ایک رکن نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جبکہ 28 سالہ سٹیفنی ٹوٹی نے بھی اسی طرح کے الزامات عائد کیے۔

جی بی کی سابق سوئمنگ سٹار الیکسس کوئن نے الزام عائد کیا کہ انہیں دو بار جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، ایک بار جب انہیں مردانہ وارڈ میں سونے پر مجبور کیا گیا اور دوسری بار مردوں اور خواتین کے مشترکہ وارڈ میں۔

رائل کالج آف سائیکاٹرسٹس کی صدر ڈاکٹر لاڈے سمتھ نے اس تحقیق کے نتائج کو ’خوفناک‘ قرار دیا ہے جبکہ شیڈو ہیلتھ سیکریٹری ویس سٹریٹنگ کا کہنا ہے کہ یہ حکومت کے لیے ’ویک اپ کال‘ ہے۔

اگر آپ اس کہانی سے متاثر ہوئے ہیں تو [email protected] پر ای میل کریں۔

اہم انکشافات میں کچھ درج ذیل ہیں:

2019  سے نومبر 2023 کے درمیان این ایچ ایس کے 30 سے زائد ٹرسٹوں میں کم از کم 19 ہزار 899 واقعات رپورٹ ہوئے – جن میں مریضوں پر عملے اور مریضوں کے دیگر مریضوں پر جنسی حملے شامل ہیں۔

اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اسی مدت کے دوران ہسپتالوں میں رپورٹ ہونے والے جنسی واقعات میں سے صرف 982 – پانچ فیصد سے بھی کم –پولیس کے پاس بھیجے گئے۔

ریپ اور خواتین پر سنگین حملوں کے 800 الزامات۔

ایک دہائی قبل پابندی کے باوجود مردوں اور خواتین کے لیے مشترکہ وارڈز اب بھی این ایچ ایس دماغی صحت کے مراکز میں ہیں اور 2019 سے اب تک جنسی حملوں کی 500 سے زیادہ رپورٹیں موصول ہوئی ہیں۔

50  میں سے صرف چھ ہسپتال یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہے کہ وہ این ایچ ایس کے معیارات پر پورا اتر رہے ہیں جس کا مقصد مریضوں کو جنسی نقصان سے بچانا ہے۔

ڈاکٹر سمتھ نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’معاشرے میں جنسی تشدد کی کوئی جگہ نہیں ہے، جس کا لوگوں کی زندگیوں پر گہرا اور دیرپا منفی اثر پڑتا ہے۔ آج کے خوفناک نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ابھی بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے کہ ذہنی صحت کے ٹرسٹوں میں مریضوں اور عملے کو ہر وقت جنسی نقصانات سے محفوظ رکھا جائے۔

’یہ دیکھنا بہت پریشان کن ہے کہ دماغی صحت کے ماحول میں بہت کم واقعات رپورٹ نہیں کیے جاتے ہیں۔‘

مس سٹریٹنگ نے کہا: ’یہ ہر مہذب شخص کو حیران کرے گا کہ یہ ہولناک جرائم ان مریضوں کے خلاف کیے گئے جو سب سے زیادہ کمزور تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ این ایچ ایس میں ہوئے ہیں۔

ہسپتالوں کے لیڈروں سے فوری طور پر بہت سنجیدہ سوالات پوچھے جانے چاہییں، جنہیں یہ بتانا ہوگا کہ ان میں سے زیادہ تر واقعات کو پولیس سے کیوں چھپایا گیا۔

’کنزرویٹو پارٹی نے 2010 میں مخلوط جنس کے وارڈز کو ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن اس کے باوجود مریضوں کا علاج مخالف جنس کے مریضوں کے سامنے کیا جاتا ہے۔ مریضوں کو اکثر یہ ذلت آمیز لگتا ہے اور اس تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ اس سے بالخصوص خواتین ہسپتال میں غیر محفوظ ہو جاتی ہیں۔‘

’حکومت کو چاہیے کہ وہ اس تحقیقات کو ’ویک اپ کال‘ کے طور پر لے اور این ایچ ایس میں مخلوط جنسی وارڈز کی بڑھتی ہوئی تعداد کے خلاف آج ہی کارروائی کرے۔‘

سابق متاثرین کی کمشنر ڈیم ویرا بیئرڈ نے کہا کہ ان لوگوں کی جانب سے حملے، جنہوں نے کمزور لوگوں کی دیکھ بھال کرنی تھی، خاص طور پر پریشان کن ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا، ’اس تحقیقات کے نتائج ایک قومی سکینڈل ہیں۔ مریضوں پر عملے کی طرف سے [حملوں کے اعداد و شمار] تشویش کی انتہا ہیں کیونکہ اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ ہسپتالوں میں آنے والے لوگوں کی جانچ پڑتال ناکافی ہے۔

’ان لوگوں کو سب سے زیادہ کمزور لوگوں پر چھوڑ دیا جاتا ہے، جن کی گواہی پر یقین نہیں کیا جا سکتا۔ جب وہ کچھ کہتے ہیں۔‘

نیشنل وائسز سے تعلق رکھنے والی شیرون برینن کا کہنا ہے کہ دی انڈپینڈنٹ کی جانب سے سامنے لائے گئے کیسز ’اعتماد کی بدترین خلاف ورزیوں میں سے ایک ہیں جن کے بارے میں ہم نے سنا ہے۔‘

ہمارے حالیہ انکشاف ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ہیلتھ کیئر سیفٹی انویسٹی گیشن برانچ گذشتہ ایک سال کے دوران دی انڈپینڈنٹ کی متعدد رپورٹوں کے بعد انگلینڈ میں مینٹل ہیلتھ کیئر کے بارے میں قومی تحقیقات شروع کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔

فریڈم آف انفارمیشن کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ مریضوں کو متعدد ہسپتالوں میں عملے سے خطرہ ہے، پانچ سال کے عرصے میں 300 سے زیادہ واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔

اپنے تجربے کو یاد کرتے ہوئے گرانٹ نے بتایا کہ کس طرح 2016 میں شمالی لندن کے چیس فارم ہسپتال میں این ایچ ایس کے عملے کے ایک رکن نے ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی تھی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ عملے نے شروع میں انہیں نظر انداز کر دیا۔

انہوں نے کہا اس کے بعد اگلی رات انہیں اسی کمرے میں سونے پر مجبور کیا گیا، حالانکہ ٹرسٹ میں شکایت کی گئی تھی اور عملے کے رکن کو معطل کر دیا گیا تھا۔

گرانٹ کہتی ہیں کہ ان کا صدمہ اس وقت مزید بڑھ گیا جب انہیں مکسڈ وارڈ میں منتقل کیا گیا، جس کے باعث وہ باہر موجود مرد مریضوں کی وجہ سے اپنے کمرے سے باہر نکلنے سے ڈرتی تھیں۔

انہوں نے کہا، ’تب سے مجھے صدمے کا سامنا ہے اور مجھے [ذہنی صحت کی سروسز سے] مدد مانگنے سے ڈر لگتا ہے۔ جب مجھے برا محسوس ہوتا ہے، تو مجھے نہیں معلوم کہ کہاں جانا ہے۔ جب آپ ہسپتال میں ہوتے ہیں تو، آپ کو آپ کو یقین ہوتا ہے کہ آپ محفوظ ہیں۔ میں نے سیکھا ہے کہ دماغی صحت کے ہسپتالوں میں کوئی حفاظت نہیں ہے۔‘

پولیس کی تحقیقات کے بعد جون 2017 میں ان پر حملہ کرنے والے کو مجرم قرار دیا گیا تھا۔ نارتھ لندن مینٹل ہیلتھ پارٹنرشپ، جو اب چیس فارم ہسپتال چلاتی ہے، نے کہا کہ مس گرانٹ کے ساتھ جو کچھ ہوا اس پر انہیں ’انتہائی افسوس‘ ہے اور اس بات پر زور دیا کہ ان کے صارفین کی حفاظت ان کی اولین ترجیح ہے۔

ایک اور مبینہ کیس میں دو بچوں کی ماں ٹوٹی نے دی انڈپینڈنٹ کو ایسیکس مینٹل ہیلتھ سروسز سے مدد مانگنے کے بعد اپنی دردناک کہانی سنائی۔

وہ دعویٰ کرتی ہیں کہ علاج کی بجائے عملے کے ایک رکن نے انہیں پانچ ماہ تک خوفناک جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔

وہ کہتی ہیں کہ ایک سال بعد ایسیکس کے ایک اور یونٹ میں داخل ہونے کے بعد انہیں دوبارہ صدمہ پہنچا، جہاں ایک سکیورٹی گارڈ نے انہیں جنسی طور پر فحش ٹیکسٹ پیغامات بھیجے تھے، جو دا انڈپینڈنٹ نے دیکھے۔

بعد ازاں پولیس نے کہا کہ مبینہ جنسی استحصال کا مقدمہ چلانے کے لیے ثبوت ناکافی ہیں۔

ایسکس پارٹنرشپ یونیورسٹی این ایچ ایس فاؤنڈیشن ٹرسٹ، جو اس وقت 2000 مریضوں کی اموات کی عوامی تحقیقات کا سامنا کر رہا ہے، نے سنگین الزامات کے بارے میں پوچھے جانے پر دا انڈپینڈنٹ کے سوالات کا جواب دینے سے انکار کر دیا۔

ہماری تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ 2019 کے بعد سے ٹرسٹوں کے اندر مخلوط جنسی وارڈوں میں کم از کم 500 جنسی حملے اور واقعات ریکارڈ کیے گئے ہیں۔

سابق سوئمنگ سٹار اور استاد مس کوئن نے 2013 میں اپنے بھائی کی موت کے بعد دماغی صحت کی سروسز سے مدد حاصل کی اور کینٹ کے لٹل بروک ہسپتال میں داخل ہوئیں۔

ان کا دعویٰ ہے کہ ان کے داخل ہونے کے چند گھنٹوں کے اندر ہی ایک مرد مریض نے ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ فوری طور پر عملے کو بتانے کے لیے بھاگیں جنہوں نے انہیں اس وارڈ میں واپس بھیجنے کی کوشش کی جہاں ان پر حملہ کرنے والا موجود تھا۔ پھر قید تنہائی میں رکھا گیا۔

کوئن نے کہا: ’آپ کو پتہ ہے، میں نظام کو مورد الزام ٹھہراتی ہوں کہ اس نے مجھے اس صورت حال میں ڈال دیا، میری حفاظت نہ کرنے کے لیے - یہ ایک سسٹم کا مسئلہ ہے۔ میرا خیال تھا کہ یہ صرف میرے ساتھ ہی ہوا، لیکن یہ صرف میں، یہ ہزاروں ہیں۔‘

ٹرسٹ نے آخر کار معافی مانگی۔ تاہم، چند ماہ کے اندر ہی انہیں ایک بار پھر مخلوط جنسی وارڈ میں منتقل کر دیا گیا، جہاں انہوں نے الزام لگایا کہ وہ دوسرے حملے کا شکار ہوئیں۔

کینٹ اینڈ میڈوے پارٹنرشپ ٹرسٹ، جو ہسپتال چلاتا ہے، نے کہا ہے کہ اپنے سینٹر میں دیکھ بھال کے دوران انہیں ’ناقابل قبول رویے‘ کا سامنا کرنے پر ’مخلصانہ معافی‘ مانگتا ہے، اور اس وقت اس کی مکمل تحقیقات اور کارروائی کی گئی تھی۔

ہماری تحقیقات کے ایک حصے کے طور پر، دی انڈپینڈنٹ اور سکائی نیوز نے 2019 سے اب تک این ایچ ایس کے 52 میں سے 30 سے زیادہ دماغی صحت ٹرسٹوں میں جنسی واقعات کے ہزاروں الزامات کا انکشاف کیا، جن میں بدسلوکی اور ریپ سے لے کر جنسی طور پر نامناسب سلوک یا زبان تک شامل ہیں۔

سکینڈل اور بھی بڑا ہونے کا امکان ہے کیونکہ ان اعداد و شمار میں نجی ہسپتال شامل نہیں ہیں جہاں ہر سال سینکڑوں این ایچ ایس مریضوں کو بھیجا جاتا ہے۔

ان میں سے ایک نیما کاس ہنٹ بھی تھیں، جن کے ساتھ 16 سال کی عمر میں ہنٹرکومب گروپ کے ایک ہسپتال میں بد سلوکی کی گئی تھی۔

ان کے ساتھ بدسلوکی کرنے والے کیئر ورکر مارکس ڈینیئل کو 2020 میں ان کے جرائم کی پاداش میں 11 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ مس ہنٹ نے متنبہ کیا کہ عملے کی کمی کا شکار مینٹل ہیلتھ سروس مریضوں کی حفاظت کرنے میں ناکام ہے۔

انہوں نے کہا، ’ہسپتال میں کسی نے بھی واضح علامات کو نہیں دیکھا اور نہ ہی سنا۔ ان پروٹوکولز میں کچھ غلط ہے جو ذہنی صحت کے ہسپتالوں میں اس وقت مریضوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ہیں جب مریض واضح علامات، اشارے اور یہاں تک کہ انکشافات کے باوجود جنسی استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔‘

اس ہسپتال کے سابق مالکان ایلی انویسٹمنٹ سے تبصرے کے لیے رابطہ کیا گیا تھا۔

میلانیا لیہی نے دا انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ایسکس کا عملہ ان کے بیٹے میتھیو کے ریپ کے دعوؤں کی تحقیقات کرنے میں ناکام رہا جب وہ 2012 میں زیر علاج تھے اور دو دن بعد ہی چل بسے۔

انہوں نے کہا، ’میرا ماننا ہے کہ اس واقعے کی وجہ سے ان کی جان چلی گئی۔ میرا ماننا ہے کہ اس واقعے کی وجہ سے میرے بیٹے کی موت ہوئی۔‘

پارلیمانی اور ہیلتھ سروس محتسب کی 2019 کی ایک رپورٹ میں پایا گیا تھا کہ عملہ ان کے الزامات کے جواب میں مناسب کارروائی کرنے میں ناکام رہا۔ اس کے جواب میں ٹرسٹ نے کہا کہ وہ میتھیو کی موت پر تعزیت کا اظہار کرتا ہے۔

دریں اثنا، 2014 میں، گایا پوپ، جو اپنی جوانی میں ریپ کا شکار ہوئی تھیں، نے ڈورسیٹ این ایچ ایس ہسپتال کے مخلوط جنسی وارڈ میں جنسی ہراسانی کی شکایت کی لیکن عملہ کوئی حفاظتی الرٹ جاری کرنے میں ناکام رہا۔

ان کی کزن مارنا پوپ ویڈمین نے کہا: ’میرا ماننا ہے کہ [ان کے خدشات کو دور کرنے میں] ناکامیاں ان کی موت کا براہ راست سبب بنیں۔ انہوں نے کوئی کارروائی نہیں کی اور انہوں نے اسے بغیر کسی [مدد] کے 24 گھنٹوں بعد گھر بھیج دیا۔

ڈورسیٹ ہیلتھ کیئر کے چیف ایگزیکٹیو میتھیو برائنٹ نے کہا کہ ٹرسٹ اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ اسے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے مزید کام کرنا چاہیے تھا کہ گایا اپنے آپ کو محفوظ محسوس کرے۔

2020  میں، جب کیئر کوالٹی کمیشن نے ذہنی صحت کی سروسز میں جنسی استحصال پر قومی تشویش کا اظہار کیا ، تو این ایچ ایس نے اپنے ’جنسی تحفظ کے تعاون‘ کے تحت رہنما خطوط مرتب کیے۔

معلوم خطرات کے باوجود، این ایچ ایس ٹرسٹ آج تک معیار پر پورے نہیں اتر رہے، صرف چھ ہسپتالوں نے اس بات کے ثبوت فراہم کیے ہیں کہ وہ ہدایات پر پورے اترتے ہیں۔

خیراتی ادارے مائنڈ کی پالیسی اینڈ کمپینز منیجر جیما بائرن نے کہا کہ تحقیقات کے نتائج ’خوفناک‘ ہیں اور انہوں نے ان ٹرسٹوں کے لیے زیادہ سے زیادہ احتساب کا مطالبہ کیا جو جنسی تحفظ کے اس طرح کے سنگین واقعات سے نمٹنے میں ناکام رہے ہیں۔

برطانیہ کے ان چند ماہرین تعلیم میں سے ایک پروفیسر چارلی بروکر، جنہوں نے جنسی حملے اور ذہنی بیماری کے درمیان تعلق کا جائزہ لیا ہے، نے دی انڈپینڈنٹ اور سکائی نیوز کو بتایا کہ دماغی صحت کے وارڈز میں جنسی تحفظ کے بارے میں تحقیقات ہونی چاہییں۔

انہوں نے کہا: ’یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ کتنے لوگ ثبوت فراہم کرنے کے لیے آگے آتے ہیں۔ اگر یہ کئی ہزار نہ ہوئے تو مجھے حیرت ہوگی۔‘

پروفیسر بروکر نے کہا: ’ذہنی بیماری بڑھنے کا ایک بڑا عنصر جنسی صدمہ ہے۔ ان کمزور لوگوں، ان کمزور خواتین کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ری ٹرومائزیشن ہے جو ایک ایسے ماحول میں ہو رہا ہے جہاں انہیں محفوظ ہونا چاہیے۔ جب وہ داخل ہوتے ہیں تو ان کی حالت پہلے سے بھی بدتر ہوتی جاتی ہے۔

ہنٹرکومب گروپ کی ملکیت ایلی انویسٹمنٹ نے کہا کہ وہ ان الزامات سے ’افسردہ‘ ہے اور افسوس ہے کہ گروپ کی ملکیت والے ہسپتال اعلیٰ معیار کی دیکھ بھال کے لیے متوقع معیار پر پورا اترنے میں ناکام رہے ہیں۔

این ایچ ایس انگلینڈ نے کہا ہے کہ جنسی حملے برداشت نہیں کیے جائیں گے اور وہ اپنے نئے این ایچ ایس جنسی تحفظ چارٹر میں عملے کے لیے بہتر رپورٹنگ میکانزم اور تربیت لا رہا ہے۔

اس کا کہنا ہے کہ تمام ٹرسٹوں کو گھریلو تشدد اور جنسی استحصال کا سربراہ مقرر کرنا ہوگا۔

تاہم، اس نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ ٹرسٹوں کی نگرانی کیسے کرے گا اور ان ٹرسٹوں کو کس طرح ذمہ دار ٹھہرائے گا جو اس کے نئے رہنما خطوط پر پورا اترنے میں ناکام رہے ہیں۔

محکمہ صحت اور سوشل ہیلتھ کیئر نے کہا کہ این ایچ ایس تنظیموں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عملے اور مریض دونوں کی حفاظت کریں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا