سیاسی جماعتوں کے لیے انتخابی مہم کا وقت ختم، خلاف ورزی پر کارروائی ہوگی

چھ فروری 2024 کی شب 12 بجے کے بعد انتخابی مہم، انتخابی اشتہارات و دیگر تحریری مواد کی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر تشہیر پر پابندی ہے جس سے کسی خاص سیاسی پارٹی یا امیدوار کی حمایت یا مخالفت کا شبہ ہو۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے سیاسی جماعتوں کو انتخابی مہم کے لیے دی گئی مہلت منگل کی رات 11:59 ختم ہو چکی ہے اور جو بھی جماعت مہم جاری رکھے گی اس کے خلاف ادارے کی جانب سے کارروائی کی جائے گی۔

اس سے قبل الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عام انتخابات 2024 میں حصہ لینے والے تمام امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کو آگاہ کیا کہ چھ فروری 2024 کی شب 12 بجے کے بعد کوئی بھی شخص کسی بھی جلسے، جلوس، کارنر میٹنگ یا اس نوعیت کی سیاسی سرگرمی کا نہ تو انعقاد کرے گا اور نہ ہی اس میں شرکت کرے گا۔

منگل کو جاری کیے جانے والے بیان میں الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ ’کوئی بھی شخص جو قانون کی شق کی خلاف ورزی کرے گا اس کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔‘

بیان کے مطابق چھ فروری 2024 کی شب 12 بجے کے بعد انتخابی مہم، انتخابی اشتہارات و دیگر تحریری مواد کی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر تشہیر پر پابندی ہے جس سے کسی خاص سیاسی پارٹی یا امیدوار کی حمایت یا مخالفت کا شبہ ہو۔

الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ’انتخابات کے انعقاد تک ذرائع ابلاغ پر ہر قسم کے پول، سروے پر بھی پابندی ہو گی۔ ذرائع ابلاغ پولنگ کے اختتام کے ایک گھنٹے کے بعد پولنگ نتائج کی نشریات شروع کر سکتا ہے جس میں یہ واضح طور پر بتایا جائے گا کہ نتائج غیر حتمی و غیر سرکاری ہیں۔

الیکشن کمیشن کے کا کہنا ہے کہ ’ریٹرننگ آفیسرز پولنگ سٹیشنوں کا پروگریسیو رزلٹ اور مکمل غیر حتمی نتیجہ جاری کریں گے۔ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کوڈ آف کنڈکٹ پر سختی سے عمل کریں۔‘

اسی بیان میں ضابطہ اختلاق کی خلاف ورزی پر پیمرا اور پی ٹی اے کو قانونی کارروائی کرنے کی ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔

منگل کو ہی جاری کیے جانے والے ایک اور بیان میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عام انتخابات 2024 میں حصہ لینے والی تمام سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کو خبردار کیا ہے کہ انتخابات کے دن یعنی آٹھ فروری کو پولنگ سٹیشن کے 400 میٹر کی حدود میں کسی قسم کی مہم ، ووٹرز کو ووٹ کے لیے قائل کرنے، ووٹر سے ووٹ ڈالنے یا نہ ڈالنے کی التجا کرنے اور کسی خاص امیدوار کے لیے مہم چلانے پر پابندی ہوگی۔

اسی طرح 100 میٹر کے اندر کسی خاص امیدوار کے حق میں ووٹ ڈالنے کے لیے ووٹرز کی حوصلہ افزائی یا اس کو ووٹ نہ ڈالنے کے لیے حوصلہ شکنی پر مشتمل نوٹس، علامات، بینرز یا جھنڈے لگانے پر مکمل طور پر پابندی ہوگی۔

الیکشن کمیشن کے مطابق: ’سیاسی جماعتیں، امیدوار اور ان کے الیکشن ایجنٹ یا ان کے حمایتی پولنگ والے دن دیہی علاقوں میں پولنگ سٹیشن سے 400 میٹر کے فاصلے پر اور گنجان آبادی والے شہری علاقوں میں 100 میٹر کے فاصلے پر اپنے کیمپ لگا سکیں گے۔‘

بیان میں کہا گیا ہے کہ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز، ریٹرننگ آفیسرز اور پولیس انتظامیہ ان تمام ہدایات پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے ذمہ دار ہوں گے اور اس کی خلاف ورزی غیر قانونی فعل تصور کی جائے گی جس پر قانون کے مطابق سخت کارروائی ہوگی۔


54 فیصد سے زائد حلقوں میں پی ٹی آئی مقبول ترین: پتن سروے

ایک حالیہ سروے کے مطابق ملک کے 54 فیصد سے زائد حلقوں میں پی ٹی آئی دیگر جماعتوں کے مقابلے میں زیادہ مقبول ہے جبکہ دیگر حلقوں میں امکان ہے کہ یہ اپنے قریبی  حریفوں سے زیادہ مقبول ہے۔

ملک کے تین صوبوں کے 131 قومی اور 190 صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں تین سے پانچ فروری کے درمیان کیے گئے پتن ڈیولیپمینٹ آرگنائزیشن-کولیشن 38 رائے عامہ کے سروے کے کچھ اہم نتائج یہ ہیں۔

اسی سروے میں یہ بھی اخذ کیا گیا کہ انہی حلقوں میں26  فیصد نے مسلم لیگ (ن) جبکہ صرف آٹھ فیصد نے پیپلز پارٹی کا نام لیا۔

پنجاب میں امکان ہے کہ پی ٹی آئی کی اہم حریف پاکستان مسلم لیگ (ن) ہوگی جبکہ خیبر پختونخوا (کے پی) میں پی ٹی آئی کے حریف جے یو آئی (ف)، اے این پی، پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی ہونے کا امکان ہے۔

اس سروے کے مطابق دیہی سندھ میں پیپلز پارٹی کا کوئی حریف نظر نہیں آتا سوائے چند حلقوں کے جہاں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) پیپلز پارٹی کو ٹف ٹائم دے سکتی ہے۔ تاہم کراچی کے بیشتر حلقوں میں تین سے چار طرفہ مقابلہ متوقع ہے۔

جہاں تک ووٹ ڈالنے کے ارادے کا تعلق ہے، رائے دہندگان کی ایک غیر معمولی تعداد (85 فیصد سے زیادہ) نے دعویٰ کیا کہ وہ آٹھ فروری کو اپنا ووٹ ڈالیں گے۔

جماعتوں اور امیدواروں کی مقبولیت کے حوالے سے پنجاب اور کے پی کے زیادہ تر سروے شدہ حلقوں میں امکان ہے کہ پی ٹی آئی کے امیدوار سب سے زیادہ پسندیدہ رہیں گے۔

جہاں تک تمام جماعتوں کو یکساں مواقع کی دستیابی کا تعلق ہے تو 39 فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ ان کے گردونواح میں تمام جماعتوں اور امیدواروں کو یکساں مواقع دستیاب نہیں ہیں جبکہ 61 فیصد نے کہا کہ یکساں مواقع دستیاب ہیں۔

الیکشن ایکٹ 2017 کے باب 10 کی دفعہ 167-168 کے تحت ووٹ خریدنا جرم ہے۔ اس سروے میں 15 فیصد جواب دہندگان نے دعویٰ کیا کہ ان کے علاقوں میں ووٹ خریدے جا رہے ہیں۔

جنوری کی پہلی ششماہی میں کیے گئے آخری سروے میں یہ دعویٰ 13 فیصد تھا، جس کا بظاہر مطلب ہے کہ ووٹ خریدنے میں اضافہ ہوا ہے۔


عمران خان کی اہلیہ نے بنی گالا رہائش گاہ کو سب جیل قرار دینے کا فیصلہ چیلنج کر دیا

پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے بنی گالہ رہائش گاہ کو سب جیل کا درجہ دینے کا نوٹیفکیشن اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔

پی ٹی آئی کے مستند ایکس ہینڈل پر پوسٹ کیے جانے والی دستاویز کے مطابق بشریٰ بی بی نے 31 جنوری 2023 کو جاری کیے جانے والے نوٹی فکیشن کو ختم کرکے انہیں اڈیالہ جیل منتقل کرنے کے احکامات جاری کیے جائیں۔

عمران خان کی اہلیہ نے یہ درخواست اپنے وکیل سلمان اکرم راجہ کے ذریعے دائر کی ہے۔


اسلام آباد ہائی کورٹ: عام انتخابات میں خواتین کی پانچ فیصد نشستوں کے معاملے پر الیکشن کمیشن طلب

اسلام آباد ہائی کورٹ نے منگل کو غیر سرکاری تنظیم عورت فاؤنڈیشن کی پیٹیشن پر الیکشن کمیشن کو بدھ کو طلب کر لیا ہے۔ عورت فاؤنڈیشن یہ درخواست عام انتخابات کے دوران خواتین کی پانچ فیصد نشستوں کے معاملے پر دائر کی تھی۔


نگران وزیر داخلہ گوہر اعجاز نے منگل کو کہا ہے کہ مسلح افواج کی مدد سے آٹھ فروری کو ملک بھر میں پر امن اور شفاف الیکشن کا انعقاد یقینی بنایا جائے گا۔

درالحکومت اسلام آباد میں نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے گوہر اعجاز کا کہنا تھا کہ ’نگران حکومت کو انتخابات کی ذمہ داری ملی ہے اور ہماری کوشش ہے کہ الیکشن کے عمل میں کسی صورت خون خرابہ نہ ہو۔‘

وفاقی وزیر نے کہا: ’ملک بھر میں الیکشن کی تیاریاں زور وشور سے جاری ہیں۔ سندھ اور بالخصوص کراچی میں الیکشن لڑنے والی جماعتیں کافی سالوں سے ایک دوسرے کو جانتی ہیں لیکن سکیورٹی ادارے اور انتظامیہ موجود ہے اور کوئی بھی قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان میں بھی ہمیں ان طاقتوں سے خطرہ ہے جو ملک میں عدم استحکام پیدا کرنا چاہتی ہیں۔ وہاں سکیورٹی اور امن و امان کے لیے پولیس اور اس کے پیچھے مسلح افواج ہیں اور آرمی کے کمانڈوز بھی بلوچستان میں موجود ہوں گے۔

نگران وزیر داخلہ نے انتخابی مہم کے دوران پیش آنے والے حالیہ واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں کراچی اور باجوڑ واقعے پر بہت تکلیف ہوئی، ہمیں ڈرانے کے لیے ساری کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔‘

گوہر اعجاز نے پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ ’حساس پولنگ سٹیشنز پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے گئے ہیں اور سکیورٹی کے تین درجوں میں انتظامات کیے ہیں۔ 29 ہزار سے زائد پولنگ سٹیشنز کو حساس قرار دیا گیا ہے، 44 ہزار پولنگ سٹیشنز کو نارمل ڈکلیئر کیا ہے جبکہ 16 ہزار 766 پولنگ سٹیشنز کو انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے۔‘

انہوں نے کہا: ’ہمیں امید نہیں یقین ہے کہ یہ الیکشن صاف، شفاف اور پرامن طریقے سے ہوں گے، ہماری پانچ لاکھ 11 ہزار پولیس فرنٹ پر کھڑی ہے، ہر زندگی کی حفاظت کرنا ہمارا پہلا فرض ہے، جو ذمہ داری نگران سیٹ اپ کے پاس ہے وہ پوری کی جائے گی۔‘

پولنگ کے دن انٹرنیٹ کی ممکنہ بندش کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے گوہر اعجاز نے کہا کہ ’اگر کسی ضلع یا صوبے کی جانب سے انٹرنیٹ کی بندش کی درخواست کی گئی تو ہم مخصوص علاقوں میں ایسا کرنے پر غور کریں گے کیوں کہ دہشت گرد رابطوں کے لیے وٹس ایپ اور انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہیں۔‘

وفاقی وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے اس موقعے پر کہا کہ تمام تر قیاس آرائیوں کے باوجود آٹھ فروری کو انتخابات کا انعقاد کروا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’جمعرات کو 12 کروڑ سے زائد پاکستانی اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔‘


دولت مشترکہ کے مبصر مشن کی نگران وزیراعظم سے ملاقات

پاکستان کے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ سے دولت مشترکہ کے مبصر گروپ کے سربراہ، ڈاکٹر گڈلک ایبیلے جانتھن نے اپنے وفد ہمراہ منگل کو اسلام آباد میں ملاقات کی۔

وزیراعظم کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ انوارالحق کاکڑ نے ’انتخابات 2024 کی شفافیت کے لیے بین الاقوامی مبصرین کی آمد کا خیر مقدم کرتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ حکومت بین الاقوامی مبصرین کو آٹھ فروی 2024 کے انتخابات کے جائزے کے لیے تمام تر سہولیات فراہم کرے گی۔ ’نگران حکومت ملک میں شفاف انتخابات کے کامیاب انعقاد  کے لیے ہر ممکن اقدامات یقینی بنا رہی ہے۔‘

بیان میں کہا گیا کہ نگران حکومت ہر جماعت کو اپنی انتخابی مہم کے لیے موزوں ماحول فراہم کر رہی ہے۔’نگران حکومت یقینی بنا رہی ہے کہ الیکشن کمیشن کو شفاف انتخابات کے کامیاب انعقاد کے لیے تمام سہولیات فراہم کی جائیں۔‘

نگران وزیراعظم نے کہا کہ انتخابات 2024 میں یہ فیصلہ عوام کریں گے کہ پاکستان کی قیادت کس جماعت کے حوالے کرنی ہے۔’وفد نے انتخابات 2024 کے شفاف انعقاد  کے لیے الیکشن کمیشن کے انتظامات کو تسلی بخش قرار دیا۔‘


انتخابات کے دن فون، انٹرنیٹ سروس معطل کرنے کی ہدایت نہیں دی: نگران وزیر اطلاعات

پاکستان میں آٹھ فروری کے عام انتخابات سے متعلق الیکشن کمیشن نے بیشتر انتظامات مکمل کر لیے ہیں اور نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے کہا ہے کہ انتخابات کے موقعے پر حکومت کی طرف سے موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس بند کرنے کی کوئی ہدایات نہیں دی گئیں۔

پیر کی شب ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو میں نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ اگر کسی جگہ امن و امان کی صورت حال خراب ہوتی ہے تو مقامی انتظامیہ صورت حال کا خود جائزہ لے کر فیصلہ کر سکتی ہے۔

مرتضیٰ سولنگی نے مزید کہا کہ آٹھ فروری کے انتخابات میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد پچھلے انتخابات کے مقابلے میں زیادہ ہے اور ان کے بقول صرف خواتین ووٹروں کی تعداد میں 20 لاکھ کا اضافہ ہوا ہے۔


26 کروڑ بیلٹ پیپرز کی ترسیل مکمل

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پیر کو کہا ہے کہ آٹھ فروری 2024 کے انتخابات کے لیے چھپوائے گئے لگ بھگ 26 کروڑ بیلٹ پیپرز کی ترسیل کا کام مکمل کر لیا گیا ہے۔

الیکشن کمیشن کے ترجمان کے مطابق: ’بیلٹ پیپرز کی ترسیل کا عمل زمینی اور ہوائی دونوں طریقوں سے مکمل کیا گیا۔ تمام بیلٹ پیپرز، سرکاری پریس اداروں سے متعلقہ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز اور ان کے نمائندوں کے حوالے کیے گئے۔‘

کمیشن کی طرف سے مزید کہا گیا کہ اس عمل میں موسم کی خرابی کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، تاہم تمام چیلنجوں کے باوجود کمیشن نے وقت پر یہ کام مکمل کیا تاکہ تمام ووٹرز ملکی انتخابات میں بہترین اور منظم طور پر شرکت کر سکیں۔


پاکستان میں عام انتخابات کے عمل پر نظر رکھے ہوئے ہیں: امریکہ

امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے پیر کو کہا ہے کہ امریکہ پاکستان کے انتخابی عمل کو باریک بینی سے دیکھ رہا ہے۔

پیر کو واشنگٹن میں معمول کی نیوز بریفنگ کے دوران ایک سوال کے جواب میں ویدانت پٹیل نے کہا: ’ہم چاہتے ہیں کہ یہ عمل آزادی اظہار، اجتماعات اور تنظیموں کے احترام کے ساتھ عوام کی وسیع پیمانے پر شرکت کے ساتھ ہونا چاہیے۔‘

ویدانت پٹیل نے مزید کہا: ’ہمیں تشدد کے تمام واقعات اور میڈیا کی آزادی پر پابندیوں پر تشویش ہے۔ انٹرنیٹ کی بلا روک ٹوک دستیابی سمیت اظہار رائے کی آزادی اور پرامن اجتماعات اور سیاسی تنظیم سازی کی اجازت ہونی چاہیے۔‘

سابق وزیراعظم عمران خان کی قید اور ان کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کے انتخابی نشان ’بلے‘ کی عدم دستیابی اور الیکشن مہم پر پابندیوں کے بارے میں سوال پر ویدانت پٹیل نے کہا کہ ’ہمیں اس حوالے سے سامنے آنے والی خلاف ورزیوں پر تشویش ہے۔ پاکستانی شہریوں کو اپنے بنیادی حق کے استعمال کا پورا حق ہے کہ وہ اپنے مستقبل کے قائدین کا انتخاب بغیر کسی خوف، تشدد یا دھمکی کے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے کریں اور بالآخر پاکستانی عوام کو ہی اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان