نوالنی کی موت پوتن کے لیے کیسے ’گلے کا کانٹا‘ بن سکتی ہے؟

کریملن کو امید ہو سکتی ہے کہ یہ حزب اختلاف کو لگام ڈالنے کا کام کرے گا لیکن اس کے برعکس الیکسی نوالنی کی موت نے روسی صدر کے سخت ترین مخالف کو ’ہیرو‘ اور ’شہید‘ بنا دیا ہے۔

16 فروری 2024 کی اس تصویر میں لندن میں روسی سفارت خانے کے باہر روسی صدر ولادی میر پوتن کے مخالف الیکسی نوالنی کی موت کے بعد ان کی یاد میں رکھے گئے پھول اور تصاویر (اے ایف پی)

یہ کہا جا سکتا ہے کہ الیکسی نوالنی کی قسمت کا فیصلہ 17 جنوری 2021 کو اس وقت ہی لکھ دیا گیا تھا جس دن انہوں نے سائبیریا میں زہر دیے جانے کے بعد جرمنی میں پانچ ماہ کے علاج اور صحت یاب ہونے کے بعد روس واپس آنے کا فیصلہ کیا تھا۔

ان کی واپسی ایک ایسے شخص کی طرف سے غیر معمولی بہادری کا مظاہرہ تھا جو جانتے تھے کہ وہ کس کے نشانے پر ہیں لیکن انہوں نے خود کو سب سے پہلے ایک روسی شہری کے طور پر دیکھا، جس کا مشن اور مستقبل صرف اس کے آبائی ملک سے وابستہ تھا، چاہے وہ سلاخوں کے پیچھے ہی کیوں نہ ہو۔

حزب اختلاف کے اس اہم رہنما کی موت کو ریاستی سرپرستی میں قتل قرار دیا جا سکتا ہے۔ کریملن یا زیادہ درست طور پر کہا جائے تو ولادی میر پوتن نوالنی کو ختم کرنے کا ارادہ رکھتے تھے، جو ان کا نام بھی کبھی اپنی زبان پر نہیں لائے تھے۔

انہیں ختم کرنے کی خواہش اس سے بھی زیادہ اس وقت سامنے آئی جب پہلی کوشش کو ایک پیشہ ورانہ ذہن رکھنے والے پائلٹ اور سائبیریا کے شہر اومسک میں ایک تیز دماغ  رکھنے والی طبی ٹیم نے ناکام بنا دیا تھا۔

یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ نوالنی کی موت کیسے اور کیوں ہوئی۔ جیل سروس نے ایک فوری رپورٹ جاری کی ہے جس میں موت کی وجہ میں خون جمنے کا حوالہ دیا گیا اور قدرتی اسباب بتائے گئے (وہ ہمیشہ ایسا ہی کہتے ہیں)۔ ناقابل تردید بات یہ ہے کہ نوالنی ایک ایسے نظام کا شکار ہو گئے جس کے پاس مخالفت کے لیے جگہ ہی نہیں ہے۔

دسمبر میں ان کی سال کے سرد ترین وقت میں انتہائی دور دراز حکومتی جیل کیمپ میں منتقلی بذات خود ایک ایسے شخص کے لیے موت کی سزا تھی جس کی صحت، جیسا کہ اس کے خاندان اور دوستوں نے خبردار کیا تھا، مسلسل بگڑ رہی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بالکل ایسا ہی سرگئے میگنٹسکی کے ساتھ ہوا تھا جو کہ امریکی نژاد برطانوی بزنس مین بل براؤڈر کے اکاؤنٹنٹ تھے۔ وہ بھی 2009 میں ماسکو کی ایک جیل میں لبلبے کی سوزش کی وجہ سے مر گئے تھے کیوں کہ ان کے مرض کو نظر انداز کیا گیا تھا۔

روسی جیل میں کسی بھی قیدی کو رسمی یا غیر رسمی طور پر موت کی سزا دینے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی خاص طور پر کسی ایسے شخص کے لیے جس کی صحت پہلے ہی بہتر نہ ہو، حالات خود بخود یہ کام کر دیتے ہیں۔

تو کیا نوالنی کی موت سے روسی صدر کو فائدہ ہو گا؟ پوتن نے اپنا سب سے مؤثر حریف کھو دیا ہے لیکن کیا نوالنی کی موت ان کی پوزیشن کو مضبوط کرے گی یا مزید کمزور؟

نوالنی ایک جدت پسند سیاست دان تھے یا شاید ایسے بن گئے تھے کیوں کہ روس نے ایسا رہنما پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ اور ان کی نوجوان ٹیم جدید میڈیا کے ماہر تھے۔ ابتدائی طور پر مقامی بدعنوانی کے مسائل پر مہم چلاتے ہوئے انہوں نے روسی معاشرے میں کئی سطحوں پر اپنا اثر ڈالا۔

ان کی پہنچ جغرافیائی اور تمام سماجی طبقات تک تھی جو کریملن کے کسی بھی دوسرے حزب اختلاف سے زیادہ تھی۔ جب وہ 2013 میں ماسکو کے میئر کے لیے کھڑے ہوئے تو انہوں نے 27 فیصد ووٹ لیے جسے حیرت انگیز طور پر مضبوط کارکردگی کے طور پر دیکھا گیا۔ یہ ایک غیر معمولی انتخابات تھے جس میں انہیں لڑنے کی اجازت دی گئی تھی۔

پوتن بلاشبہ مارچ کے وسط میں ہونے والے انتخابات میں دوبارہ صدر منتخب ہو جائیں گے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ نوالنی کا نام شاید کبھی بھی بیلٹ پیپر پر شائع نہیں ہونا تھا لیکن پھر بھی ان کی موت اب پوتن کے لیے شدید ردعمل کا باعث بن سکتی ہے۔

کریملن کو امید ہو سکتی ہے کہ یہ ان لوگوں کو لگام ڈالنے کا کام کرے گا جو حزب اختلاف کی سرگرمی سے کھلواڑ کر رہے ہیں لیکن اس کے برعکس ان کی موت نے حقیقت میں روسی صدر کے سخت ترین مخالف کو ہیرو اور شہید بنا دیا ہے۔

نوالنی کی موت ان کی انسانی کمزوریوں اور سیاسی ناکامیوں کو چھپا دے گی اور وہ سوویت دور کے ان معزز منحرف لوگوں کی فہرست میں شامل ہو جائیں گے جن کی وہ کئی طرح سے تقلید کرنے میں لگے ہوئے تھے۔

تو اب ہمیں ان کی موت سے کیوں آگاہ کیا گیا؟ ٹھیک ہے کریملن شاید اس حقیقت پر یقین کر رہا ہے کہ نوالنی کی موت کا وقت ماسکو کی ساکھ اور دنیا میں اس کے کُھل کر کھیلنے کی آزادی پر اتنا منفی اثر نہیں ڈالے گا جیسا شاید پہلے ڈال سکتا تھا۔ لیکن ہمیں انہیں غلط ثابت کرنا ہوگا۔

تقریباً دو سال قبل یوکرین پر روس کے حملے کے بعد امریکہ اور یورپی یونین کی طرف سے لگائی گئی تمام پابندیوں کے ساتھ، معمول کے تجارتی تبادلے اور معمول کے سفارتی رابطوں کے خاتمے کے باوجود یہ سچ ہے کہ مغرب کی روس پر کوئی خاص پکڑ نہیں ہے۔

لیکن نوالنی کی موت، جو روس کے سخت ترین سمجھے جانے والے جیل کیمپ میں ہوئی، کو پوتن حکومت کی سفاکیت کا ثبوت دیا جا سکتا ہے۔ اسے بین الاقوامی فورمز پر اٹھایا جانا چاہیے۔ بہت سے لوگوں کے لیے یوکرین میں جنگ پہلے ہی کافی ثبوت فراہم کر چکی ہے کہ کریملن اپنے دشمنوں کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے۔

خوف یا گمراہ کن وفاداری کی وجہ سے پچھلے دو سالوں سے روسیوں نے بڑے پیمانے پر قومی پرچموں کے ساتھ ریلیاں نکالی ہیں۔ فی الحال نوالنی روس کے مقابلے میں مغرب کے لیے شہید ہیں۔ ہمیں اس میں تبدیلی کی امید کرنی چاہیے۔

اس دوران برطانیہ کو اپنی سفارتی طاقت، اگر اس میں کچھ بچا ہے، کو کسی دوسرے حزب اختلاف کے شخص کی آزادی کے لیے سخت ترین ممکنہ شرائط کے طور پر استعمال کیا جانا چاہیے، جس نے نوالنی کی طرح اپنے وطن واپس جانے کا انتخاب کیا ہو جب کہ اگر وہ چاہتے تو ایسا نہ بھی کرتے۔

جیسا کہ ولادی میر کارا مورزا ایک روسی نژاد برطانوی شہری ہیں جنہیں روس میں گذشتہ سال یوکرین جنگ کی مخالفت سمیت سیاسی الزامات میں 25 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

نوالنی کی طرح ان کی صحت بھی خراب بتائی جاتی ہے۔ نوالنی کو بچانے میں بہت دیر ہو چکی ہے لیکن کارا مورزا کی رہائی کے لیے برطانیہ کی جانب سے کہیں زیادہ فعال کوششوں کی ضرورت ہے۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر