ادویات کی کمپنیوں کو قیمتوں کے تعین کا اختیار معطل

لاہور ہائی کورٹ نے ادویات ساز کمپنیوں کو دواؤں کی قیمتوں کے تعین کا اختیار دینے کا نوٹیفکیشن جمعرات کو معطل کرتے ہوئے نگران حکومت سے جواب طلب کر لیا۔

لاہور ہائی کورٹ نے ادویات ساز کمپنیوں کو دواؤں کی قیمتوں کے تعین کا اختیار دینے کا نوٹیفکیشن جمعرات کو معطل کرتے ہوئے نگران حکومت سے جواب طلب کر لیا۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے شہری محمد اسلم کی درخواست پر سماعت کی جس میں ادویات کے تعین کے نوٹیفکیشن کو چیلنج کیا گیا تھا۔

درخواست میں نشاندہی کی گئی کہ ادویات کی قیمتیں مقرر کرنے کے لیے نگران حکومت نے قانون کے منافی نوٹیفکیشن جاری کیا، جس کے بعد ادویات کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ نگران حکومت ادویات کی قیمتیں مقرر کرنے کا سیکشن ڈرگ ایکٹ سے نکال رہی ہے اور ایسا کرنے کا اختیار نگران حکومت کے پاس نہیں ہے، اس لیے یہ فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے اور درخواست کے حتمی فیصلے تک نوٹیفکیشن معطل کر دیا جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان کی نگراں حکومت نے چند ضروری ادویات کے علاوہ روزمرہ استعمال کی باقی تمام ادویات کی قیمتوں کو ڈی ریگولیٹ کرنے کا فیصلہ کیا، جس کے بعد ادویات ساز کمپنیاں ان دواؤں کی قیمتوں کا تعین خود کر سکیں گی۔

نگران وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان (ڈریپ) نے 19 فروری کو اس کا باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔

وفاقی کابینہ کے اس فیصلے کے بعد مارکیٹ میں ادویات کی قیمتوں میں اضافے کا امکان ہے کیوں کہ اب قیمتوں کا تعین مارکیٹ میں طلب اور رسد کی بنیاد پر ہو گا۔

نوٹیفکیشن کے مطابق ڈریپ ایکٹ 1976 میں تبدیلی سے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے کردار کو ختم کرتے ہوئے دواؤں کی قیمتیں مقرر کرنے کے لیے دوا ساز کمپنیوں کو اختیار دیا گیا ہے۔ حکومت کے اس فیصلے کا اطلاق ’نان اسینشل میڈیسنز‘ یعنی روزمرہ کی ادویات پر ہو گا۔

دوائیں تیار کرنے والی ایک کمپنی کے مالک عبدالرؤف نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستان میں ادویات کو دو کیٹیگریز یعنی ضروری اور روزمرہ استعمال کی جانے والی دواؤں میں تقسیم کیا گیا ہے اور  تقریباً 70 فی صد دوائیں ضروری اور 30 فی صد روز مرہ استعمال کی جانے والی کیٹیگری میں آتی ہیں۔

بقول عبدالرؤف: ’اب روزمرہ استعمال کی دوائیں یعنی بخار، سر درد، بلڈ پریشر، اینٹی بائیو ٹکس، اینٹی الرجی اور ملٹی وٹامنز کی قیمتیں کنٹرول کرنا حکومت کے دائرہ اختیار میں نہیں ہو گا جب کہ جان بچانے والی دواؤں کی قیمتیں بڑھانے کا اختیار کابینہ کی منظوری سے ہی ممکن ہو گا۔‘

انہوں نے مزید بتایا: ’نگراں حکومت کی جانب سے روزمرہ استعمال کی جانے والی ادویات کی قیمتیں بڑھانا حکومت کے جانب سے ترتیب دی گئی نیشنل میڈیسن پالیسی کا حصہ ہے۔ اگرچہ یہ پالیسی ابھی منظر عام پر نہیں آئی لیکن اس پر عمل درآمد شروع ہو چکا ہے۔‘

پاکستان میں ادویات ساز کمپنیاں بہت عرصے سے قیمتوں کا تعین مارکیٹ میں طلب و رسد کی بنیاد پر کرنے کا مطالبہ کر رہی تھیں۔

عبد الرؤف نے بتایا کہ ’بہت سی ملکی و غیر ملکی ادویات ساز کمپنیاں ڈالر ریٹ بڑھنے کے باعث کئی ادویات نہیں بنا پا رہیں کیونکہ کئی ادویات اور خام مال وہ درآمد کرتی ہیں، جن کی ادائیگی ڈالرز میں ہوتی ہے۔ اس سے پاکستانی روپے میں قیمت زیادہ بنتی ہے، لیکن زیادہ قیمت پر فروخت نہ کرنے کی اجازت کے باعث کئی دوائیں بنانا مشکل ہو جاتا ہے، لہذا حکومت کا یہ فیصلہ ادویات ساز صنعت کے لیے مثبت اقدام بہتر ہے اور اس سے دواؤں کے بحران پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت