امریکہ کی شکاگو یونیورسٹی کے محققین کے مطابق افغانستان میں 37 سے زیادہ آثار قدیمہ کو تباہ کیا گیا ہے جن کو طالبان کی زیرانتظام حکومت کے دوران ’منظم لوٹ مار‘ کا نشانہ بنایا گیا۔
شکاگو یونیورسٹی کے سینٹر فار کلچرل ہیرٹیج پریزرویشن کے محققین نے ایسے 162 آثار قدیمہ کی نشاندہی کی جنہیں 2018 اور 2021 کے درمیان خطرناک شرح سے تباہی کا سامنا کرنا پڑا جب کہ 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے 37 ایسے مقامات کی تباہی کا یہ سلسلہ جاری رہا۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق شمالی افغانستان کے بلخ کے علاقے کے ارد گرد شناخت کیے گئے مقامات کی سیٹلائٹ تصاویر کے تجزیے نے ’لوٹ مار‘ کے پیٹرن کے پہلے شواہد فراہم کیے ہیں جن کی ابتدائی طور پر شناخت طالبان کے اقتدار میں پہلے دور میں ہوئی تھی اور اس کے بعد سے یہ سلسلہ جاری ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ جن مقامات کو لوٹا گیا ہے وہ کانسی کے اواخر اور لوہے کے دور سے تعلق رکھتے ہیں جن میں سے کچھ 1000 قبل مسیح قدیم ہیں۔
ان میں سے زیادہ تر مقامات بلخ کے علاقے میں واقع ہیں جو پہلے بکٹریا تہذیب کا مرکزی علاقہ تھا جو اشمیند سلطنت کے دور میں چھٹی صدی قبل مسیح سے متعلق ایک شاندار ماضی کا حصہ ہے۔
اس کے بعد اس خطے پر سکندر اعظم نے قبضہ کر لیا جو زرتشت اور بدھ مت کے عقیدے کے مرکز میں تبدیل ہوا جو بعد میں اسلامی ثقافت کا مرکز بن گیا۔
محققین نے پورے افغانستان میں 29 ہزار آثار قدیمہ کے مقامات کی نشاندہی کی ہے۔
اشرف غنی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد طالبان دوبارہ اقتدار میں آگئے اور انہوں نے ملک کے قدیم ورثے کا احترام کرنے کا وعدہ کیا اور اعتدال پسند حکمرانی برقرار رکھنے کی یقین دہانی بھی کرائی۔
سال 2001 میں اپنے پہلے دور اقتدار کے دوران طالبان نے بامیان میں بدھا کے ایک دیو قامت مجسمے کو تباہ کرنے کے بعد مورخین کو دنگ کر دیا تھا۔
یہ 1500 سال سے زائد عرصے سے دنیا کے سب سے بڑے بدھا کے مجسمے کے طور پر کھڑا تھا۔ شاہراہ ریشم کے راستے پر موجود یہ مجسمہ یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ اور بدھ مت کے ماننے والوں کے لیے ایک مقدس مقام تھا۔
شکاگو یونیورسٹی کے سنٹر فار کلچرل ہیرٹیج پریزرویشن کے ڈائریکٹر پروفیسر گِل سٹین نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ انہوں نے 2018 سے خطے میں تباہی کے ایک نئے پیٹرن کی نشاندہی کی ہے۔
سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر میں نشانات دکھائے گئے جن کے بارے میں ان کی ٹیم کا کہنا ہے کہ انہیں بلڈوز کر دیا گیا ہے اور یہ مقامات وقت کے ساتھ غائب ہو گئے۔
گِل سٹین نے کہا کہ مزید تصاویر میں نئی بلڈوزڈ سائٹس کو دکھایا گیا ہے جن کو لٹیروں کی جانب سے وقفے وقفے سے کھودا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ وسیع جگہوں کو صاف کر رہے ہیں تاکہ ان مقامات کو منظم طریقے سے لوٹنا آسان ہو۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گِل سٹین نے کہا کہ یہ لوٹے گئے نوادرات افغانستان سے ایران، پاکستان اور دیگر ممالک کے راستے سمگل کیے جاتے رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ یورپ، شمالی امریکہ اور مشرقی ایشیا کے عجائب گھروں یا نیلام گھروں میں نمائش کے لیے پیش کیے جا سکتے ہیں۔
گِل سٹین نے کہا کہ 2018 سے 2021 تک کے چار سالوں میں تقریباً 162 مقامات کو محض ایک ہفتے کے قلیل وقت میں ایک حیران کن شرح سے تباہ کیا گیا اور 2021 میں طالبان کی جانب سے اقتدار حاصل کرنے کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔
دوسری جانب طالبان حکومتی عہدیداروں نے ملک میں تاریخی مقامات کی تباہی اور لوٹ مار کے دعووں کو مسترد کر دیا ہے۔
طالبان کے قائم مقام نائب وزیر برائے اطلاعات و ثقافت عتیق اللہ عزیزی نے بی بی سی کو بتایا کہ تاریخی اہمیت کے حامل مقامات کی حفاظت کے لیے 800 یونٹ تعینات کیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم نے ان تاریخی مقامات کا جائزہ لینے کے لیے مختلف ٹیمیں بھیجی ہیں اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ان مقامات پر ایک بھی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا۔‘
تاہم پروفیسر گِل سٹین نے کہا: ’ہم ثابت کر سکتے ہیں کہ دو بالکل مختلف سیاسی حکومتوں میں بھی (لوٹ مار کا) تسلسل موجود تھا۔