گندھارا تہذیب کا گڑھ کہلانے والے خیبر پختونخوا کے ضلع سوات کی تحصیل بریکوٹ کے علاقے ٹوکردرہ میں صوبائی محکمہ آثار قدیمہ کی کھدائی کے دوران ہزاروں سال پرانے آثار دریافت ہوئے ہیں، جن میں ایک بدھا کا مجسمہ بھی شامل ہے۔
سوات میوزیم میں بحیثیت کیوریٹر خدمات سرانجام دینے والے نوازالدین نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ سوات تاریخی لحاظ سے ایک نہایت اہم خطہ ہے جہاں ہزاروں کے قریب آثارِ قدیمہ کی سائٹس موجود ہیں۔
نوازالدین کے مطابق، صوبائی حکومت نے سوات کے 22 آثار قدیمہ کے مقامات کو باضابطہ طور پر تحفظ یافتہ قرار دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حال ہی میں ان 22 مقامات میں شامل ایک اہم سائٹ ’ٹوکردرہ‘ پر کھدائی اور بحالی کا کام مکمل کیا گیا ہے۔ یہ مقام بدھ مت کے پیروکاروں کی ایک عبادت گاہ تھی جہاں ایک عظیم الشان سٹوپا اور خانقاہ موجود ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ ’خانقاہ دراصل ایک ایسی جگہ تھی جہاں بدھ مت کے طلبہ تعلیم حاصل کرتے اور رہائش پذیر ہوتے تھے، بالکل اسی طرح جیسے آج کل مدارس میں طالب علم رہتے ہیں۔‘
ٹوکردرہ میں حالیہ کھدائی کے دوران پانچ چھوٹے اور ایک بڑا مجسمہ دریافت ہوا ہے، جبکہ ایک خوبصورت مجسمہ مرکزی سٹوپا کی بنیاد کے ساتھ آج بھی اپنی جگہ پر قائم ہے۔
نوازالدین کا کہنا تھا کہ ’یہ دریافتیں نہ صرف سوات کی تاریخی اہمیت کو مزید اجاگر کرتی ہیں بلکہ یہ بھی ظاہر کرتی ہیں کہ یہاں آج بھی گندھارا تہذیب کی گونج سنائی دیتی ہے‘
کلچرل سٹڈیز کے محقق اور سوات سے تعلق رکھنے والے حسنین جمال نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’ٹوکردرہ بدھ مت کا ایک انتہائی اہم اور قدیم مقام ہے اور یہ وہ جگہ ہے جسے محکمہ آثارِ قدیمہ نے حال ہی میں دریافت کیا ہے۔
’یہاں بدھ مت سے منسلک ایک ہزاروں سال پرانا سٹوپا بھی سامنے آیا ہے۔ یہ دریافت ہمارے طلبہ، محققین اور تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ایک نایاب مظہر ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’اس طرح کے مقامات نہ صرف سائنسی اور ثقافتی تحقیق کے لیے اہم ہیں بلکہ مذہبی سیاحت کو فروغ دینے کا بھی ذریعہ بن سکتے ہیں۔ ہمیں گرین ٹورازم کے علاوہ مذہبی سیاحت پر بھی بھرپور توجہ دینا چاہیے تاکہ سوات کا یہ قیمتی ورثہ دنیا کے سامنے اجاگر ہو سکے۔‘