77 برس سے چلنے والا ڈراما

سچ پوچھیں توعوام کا بھی قصور نہیں، وہ 77 برس سے ایک ہی ڈراما دیکھ رہے ہیں، ان برسوں میں جب بھی وہ بور ہونے لگتے ہیں تو ڈرامے کے ہدایت کار اور لکھاری چند نئے کردار ڈال دیتے ہیں۔

ڈراما ’وارث‘میں بیک وقت کئی کہانیاں اور کردار تھے جن میں سب سے زیادہ شہرت چوہدری حشمت کے کردار کو ملی جو محبوب عالم نے نبھایا (پی ٹی وی سکرین گریب/ڈراما پوسٹر)

آج بیٹھے بٹھائے پاکستان ٹیلی ویژن کا یادگار ڈراما ’وارث‘ یاد آگیا۔

آپ میں سے جو لوگ میرے ہم عصر ہیں انہیں تو اس  ڈرامے کی کہانی ازبر ہوگی البتہ جنریشن زی نے شاید ’وارث‘ کا نام بھی نہ سنا ہو۔

سو، ان کے لیے بتا دیتا ہوں کہ ’وارث‘ میں بیک وقت کئی کہانیاں اور کردار تھے جن میں سب سے زیادہ شہرت چوہدری حشمت کے کردار کو ملی جو محبوب عالم نے نبھایا۔

اس کے علاوہ دلاور (عابد علی) اور مولا داد (شجاعت ہاشمی) کی جوڑی نے بھی خوب داد سمیٹی۔

دلاور اپنے دشمن فتح شیر کی تلاش میں گاؤں آتا ہے اور وہاں اس کی دوستی مولا داد سے ہوجاتی ہے، دونوں یک جان دو قالب بن جاتے ہیں مگر مولا داد کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ دلاور کو فتح شیر کی تلاش ہے اور دلاور کو یہ پتہ نہیں چلتا کہ مولا داد ہی اصل میں فتح شیر ہے۔

یہ بات ڈرامے کی آخری قسط  میں کھلتی ہے۔ جس زمانے میں امجد اسلام امجد صاحب نے یہ ڈراما لکھا تھا اس زمانے میں وٹس ایپ اور موبائل فون تو دور کی بات، عام کیمرے سے تصویر لینے کا رواج بھی زیادہ نہیں تھا۔

اسی لیے دلاور کے پاس فتح شیر کی کوئی تصویر نہیں تھی، جسے وہ ’شئیر‘ کر سکتا۔

آج کی تاریخ میں اگر ڈرامے میں یہ صورت حال ہوتی تو لکھاری کے لیے مصیبت بن جاتی، فتح شیر کا انسٹا گرام اور فیس بک اکاؤنٹ ہوتا، دلاور کے موبائل فون میں فتح شیر کی تصویر ہوتی اور وہ مولا داد کو دیکھتے ہی پہچان جاتا اور اسے پہلی ہی قسط میں گولی مار دیتا، آخری قسط تک نوبت ہی نہ آتی۔

آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ یہ میں کیا قصہ لے کر بیٹھ گیا ہوں، ملک میں ہیجان برپا ہے اور میں اس بات میں الجھا ہوا ہوں کہ اگر ’وارث‘ ڈراما آج بنتا تو کیسے لکھا جاتا!

عرض یہ ہے کہ جب ملک جل رہا ہو تو کوئی نہ کوئی بانسری ضرور بجاتا ہے، فی الحال چونکہ کسی نے بانسری بجانے کی ذمہ داری نہیں اٹھائی اس لیے مجبوراً فدوی کو یہ کام کرنا پڑرہا ہے۔

ویسے میں خود بھی لکھاری قسم کا بندہ ہوں، سو مجھے اچھی طرح اندازہ ہے کہ لکھاری کو ڈرامے کی صورت حال دلچسپ بنانے کے لیے کس قدر ذہنی مشق کرنی پڑتی ہے۔

جب سے موبائل فون اور سوشل میڈیا کا سیلاب آیا ہے، ڈراما لکھنا اور بھی مشکل ہوگیا ہے۔ بچپن میں جدا ہونے والے جڑواں بچوں کی کہانیاں اب پیش نہیں کی جا سکتیں۔

لیکن اب لکھاری بھی کافی سیانے ہوگئے ہیں، انہوں نے اس مسئلے کا حل یہ نکالا ہے کہ ’یملے‘ بن گئے ہیں۔

وہ ڈراما تو 2024 میں لکھ رہے ہیں مگر اس میں صورت حال 1990 والی ہوتی ہے۔

اول تو ڈرامے کا کوئی کردار موبائل فون استعمال نہیں کرتا اور اگر کسی اہم موقعے پر کال ملانی ضروری ہوجائے تو عین اس وقت نیٹ ورک ڈاؤن ہوجاتا ہے اور کردار جھلا کر فون پٹخ دیتا ہے اور دوبارہ کال کرنے کی زحمت نہیں کرتا۔

لکھاری خواتین و حضرات نے ان قباحتوں سے بچنے کے لیے ڈرامے کی لوکیشن کا سہارا لینا بھی شروع کر دیا ہے، یعنی جگہ ایسی ہو جہاں موبائل فون کے استعمال کا کسی کو خیال ہی نہ آئے۔

مثلاً آج کل ٹی وی پر ’خئی‘ نام کا ڈراما نشر ہورہا ہے جو کہ خاصا ہِٹ جا رہا ہے، اس کی لوکیشن ’علاقہ غیر‘ جیسی کسی جگہ کی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کہانی کچھ یوں ہے کہ 25 سال بعد ایک پشتون فیملی بیرون ملک سے واپس اپنے گاؤں آتی ہے، وہاں ان کی برسوں پرانی دشمنی ہے، خاندان کا سربراہ شریف آدمی ہے اور وہ اس دشمنی کو ختم کرنا چاہتا ہے مگر دوسری پارٹی نہیں مانتی اور وہ پوری فیملی کو گولیوں سے بھون دیتے ہیں۔

صرف ایک جوان لڑکی زندہ بچتی ہے جسے وہ اٹھا کر لے جاتے ہیں اور زبردستی اس کی شادی ولن سے کر دی جاتی ہےاور یوں وہ اس کی تیسری بیوی بن جاتی ہے۔

پورے ڈرامے میں قتل و غارت گری عروج پر ہے، ہر قسط میں دو چار لاشیں گرتی ہیں، مگر مجال ہے کہ علاقے کی پولیس حرکت میں آئے، کوئی مقامی اخباری نمائندہ خبر شائع کرے یا ڈپٹی کمشنر کے کان پر جوں بھی رینگے۔

یوں لگتا ہے جیسے یہ ڈراما قبل از مسیح میں بنایا گیا ہے جب پولیس، انتظامیہ، میڈیا کچھ بھی نہیں ہوا کرتا تھا۔

اسی طرح زندہ بچ جانے والی لڑکی کی ماں یا اس کی کوئی دوست، رشتہ دار یا یونیورسٹی میں ساتھ پڑھنے والوں میں سے بھی کوئی نہیں ہے جو یہ سوچے کہ لڑکی کہاں غائب ہوگئی۔

لڑکی کا منگیتر جو انتقام کی آگ میں جل رہا ہے، اچھا خاصا پڑھا لکھا سیانا آدمی ہے، مگر اسے بھی یہ خیال نہیں آیا کہ اس ظلم کی داستان کو کہیں رپورٹ کیا جائے، کسی عدالت میں درخواست جمع کروائی جائے یا سوشل میڈیا پر قتل کی ویڈیو ہی وائرل کر دی جائے۔

مصیبت یہ ہے کہ اگر رائٹر یہ سب کچھ ڈال دے تو ڈراما پہلی ہی قسط میں ختم ہوجائے گا، مگر ڈرامے کو چونکہ رینگ رینگ کر چلانا مقصود ہے، سو سٹار پلس کے انداز میں ہر منظر کو  سلو موشن میں دکھایا جا رہا ہے اور عوام دیکھ رہے ہیں۔

میرا مقصد پاکستانی ڈراموں پر تنقید کرنا نہیں، ہمارے ڈراموں کی پروڈکشن کا معیار بہت اعلیٰ ہے، اسی ڈرامے ’خئی‘ کی پروڈکشن بھی کمال کی ہے۔

مجھے صرف لکھاریوں سے گلہ ہے اور وہ بھی صرف اتنا کہ ایک قسط کی کہانی کو 20 اقساط پر نہ پھیلایا کریں، اگر آپ کا ڈراما فارورڈ کرکے دیکھا جا سکتا ہے یا اسے کئی قسطیں چھوڑ کر بھی پکڑا جا سکتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ کہانی کو زبردستی کھینچ تان کر طول دیا گیا ہے۔

لیکن میں جانتا ہوں کہ یہ مشورے کسی کام کے نہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام یہ کہانیاں ذوق و شوق سے دیکھ رہے ہیں، ملین ملین ویوز آ رہے ہیں، ڈالروں میں آمدن ہو رہی ہے، سو ایسے میں کیا ضرورت ہے کسی کو نئے تجربات کرنے کی۔

اور سچ پوچھیں توعوام کا بھی قصور نہیں، وہ 77 برس سے ایک ہی ڈراما دیکھ رہے ہیں، ان برسوں میں جب بھی وہ بور ہونے لگتے ہیں تو ڈرامے کے ہدایت کار اور لکھاری چند نئے کردار ڈال دیتے ہیں، یہ کردار سکرین پر جلوہ گر ہوتے ہیں، عوام کو اپنے سحر میں لیتے ہیں اور یوں کچھ عرصے کے لیے ان کی بوریت دور ہوجاتی ہے۔

گویا جو ڈراما آزادی کے پہلے دو چار برسوں میں ختم ہوجانا چاہیے تھا، وہ ہمارے ہاں 77 برس بعد بھی چل رہا ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر