برنس روڈ کے رومیو جیولیٹ اور کراچی کی فوڈ سٹریٹ

رومیو جولیٹ کی کہانی کراچی کی مشہور برنس سٹریٹ کے ماحول میں پہنچ گئی ہے۔

گھٹن زدہ ماحول میں رومانوی ڈراما سب کا کیتھارسس کر رہا ہےاور بہت مقبول ہو رہا ہے (اے آر وائی ڈیجیٹل)

برنس روڈ پاکستان میں اپنے کھانوں کے حوالے سے مشہور ہے، جہاں شاہی نوابی قسم کی کھانے ہوں گے وہاں محبت کا حسن بھی شاہی نوابی ہی ہو گا۔

محمد سعید جاوید اپنی ایک تصنیف میں لکھتے ہیں: ’قیام پاکستان کے بعد شمالی ہندوستان خصوصاً دہلی کے مہاجرین نے یہاں آ کر چٹ پٹے اور مزیدار کھانے متعارف کروائے جن میں دہی بڑے، گول گپے، نہاری، حلیم، پائے اور بے شمار اقسام کے لذیذ کباب متعارف کروائے۔

اس کے علاوہ یہاں طرح طرح کے میٹھے پکوان اور مٹھائیاں بھی بنتی تھیں جن پر بلا مبالغہ لوگ ٹوٹ پڑتے تھے۔ برنس روڈ کے ان کھانوں کے مزے کی دھوم تو دور دور تک تھی، چنانچہ جلد ہی یہ جگہ کراچی کی فوڈ سٹریٹ کا روپ دھار گئی۔‘

جس جگہ کی شہرت ہو گی اس کی وجہ شہرت فنون لطیفہ کو متاثر تو کرے گی اس ڈرامے کی اہمیت بھی برنس روڈ اور اس کا کلچر ہے، باقی سب زیب داستاں کے لیے کرنا ہی پڑتا ہے۔

دوسری علامت رومیو جیولیٹ ہے جو ولیم شیکسپیئر کا مشہور المیہ ڈراما تھا۔ یہ ایک لڑکے اور ایک لڑکی کی محبت بےحد جذباتی اور المیہ کہانی ہے اور بعض رپورٹوں کے مطابق آج تک اس کہانی کو سب سے زیادہ فلمایا گیا ہے۔ اس ڈرامے کو اسی کا تسلسل کہہ سکتے ہیں۔

موتی محل کی فریحہ کو برنس روڈ کے مڈل کلاس بزنس مین کے بیٹے فرہاد سے محبت ہو جاتی ہے۔ ایک حادثے سے یہ محبت کی دو طرفہ آگ ڈرامے کی کہانی بنتی ہے۔ فرہاد اپنے خاندان کا پہلا گریجویٹ ہے اور اس کے باپ نے اسے پہلے ہی بتا دیا ہوا ہے کہ وہ پڑھ کر اپنا موروثی کاروبار پکوان ہاؤس ہی پروان چڑھائے گا۔

ایک موٹر سائیکل حادثے نے فریحہ و فرہاد کو ایک کر دیا۔ کچی عمر کی محبت بہت پکی ہوتی ہے جو رنگ لے آتی ہے اور زمانہ چاچا کیدو بن درمیان میں ضرور آتا ہے۔

برنس روڈ پہ فریحہ اور فرہاد کی محبت کا آغاز مال پورہ اور ربڑی کھانے سے ہوتا ہے۔ اس محبت کی خوشبو فریحہ کے گھر تک پہنچ جاتی ہے اور گھر کا ماحول اس کے لیے ساز گار نہیں رہتا۔

فریحہ اور فرہاد کے والد کی کوئی پرانی دشمنی بھی ہے جس میں فرہاد کا باپ ایک بد دعا دیتا ہے وہی محبت بن کر فریحہ اور فرہاد کو لگ جاتی ہے۔

فریحہ کے گجراتی میمن خاندان کا سونے کا بڑا کاروبار ہے جس پہ خاندان کو ناز بھی بہت ہے۔ وہ اپنے جیسے ہی ہم مرتبہ خاندان میں بیٹی بیاہنا چاہتے ہیں مگر بیٹی کو کوئی پسند ہی نہیں آتا۔ مشترکہ خاندانی نظام ہے جس میں ذرا سا جذباتی ہونے پہ گجراتی زبان منہ سے نکلنے لگتی ہے۔

مادری زبان ہی جذبات کی اصل ترجمانی کر سکتی ہے یہ نکتہ یہاں واضح دکھائی دے رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری کہانی فرہاد کی بہن کرن اور شاہ زین کی ہے۔ شاہ زین بھی کرن کے خاندان کی طرح مڈل کلاس گھرانہ ہی ہے جو شادی سے پہلے گاڑی کا مطالبہ کر دیتے ہیں۔ فرہاد انکار کرتا ہے تو بات بڑھ جاتی ہے۔ وہی مڈل کلاس کی طرح بیٹھ کر پھر بات ہوتی ہے اور کرن کی شادی شاہ زین سے ہو جاتی ہے۔

شادی کی پہلی رات شاہ زین اور فرہاد کی لڑائی جو برنس روڈ پہ کچھ دن قبل ہوئی تھی اس کی ویڈیو وائرل ہو جاتی ہے۔ شاہ زین کا رویہ کرن سے مزید اکھڑ جاتا ہے۔ وہ شادی کی رات ہی ازدواجی ہراسانی کا شکار ہو جاتی ہے۔

ایک ڈر اس کے اندر گھر کر لیتا ہے مگر پھر وہی مڈل کلاس گھر تو ایسے ہی بستے ہیں۔ وہ خاموش رہتی ہے۔ شاہ زین کی ماں کرن کو طنز کرتی ہے کہ جب تک اس کے گھر والے گاڑی نہیں دیں گے، اس کا موڈ ٹھیک نہیں ہو گا۔

ایک اورکہانی فریحہ کی پھوپھو کی ہے جن کی طلاق ہو گئی تھی مگر اب اس عمر میں اس کو اپنے ہم مرتبہ خاندان کا ایک سپوت ایک دن صبح کی سیر کے دوران مل جاتا ہے۔ یہ نوک جھونک بھی چل رہی ہے۔

اس سارے چکر میں کہانی کو تو چلنا ہے، وہ چلے گی مگر جس طرح برنس روڈ کے رومان کو دکھایا گیا ہے وہ الگ ہی ہے۔ کراچی کے کھانوں کی بات ہو تو بریانی کے بنا کہانی مکمل نہیں ہوتی۔

ڈرامے میں جس طرح بریانی کی تعریف و تعارف پیش کیا گیا ہے اور اس کے بعد بتایا گیا ہے بریانی کا اصل لطف تو اس کو دم کے بعد مکس کرنا ہے اور جس انداز میں شبیر جان نے بریانی کی دیگ کا سین عکس بند کیا ہے خوشبو و ذائقہ تک ناظر کو محسوس ہوتا ہے۔

برنس روڈ رات بھر جاگتا ہے۔ باہر میز کرسی لگائے ہر کوئی اپنا ذائقہ فروخت کر رہا ہے۔ رات بھر کھانوں کی خوشبو سمندر کی ہوا کے سنگ رقص کرتی ہے۔

ڈرامے کی موسیقی بہت عمدہ ہے جس میں کہانی کی مطابقت سے کچھ ایکشن، کچھ جذبات، کچھ رواج، کچھ فلمی پن بھی ہے لیکن ہم دیکھ رہے ہیں یہ سب عناصر ڈراموں میں بڑھتے جا رہے ہیں۔

مصنفہ پریشہ صدیقی ہیں۔ ہدایت کار فجر رضا ہیں۔ اقرارعزیز اور حمزہ سہیل مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔ گھٹن زدہ ماحول میں رومانوی ڈراما سب کا کیتھارسس کر رہا ہےاور بہت مقبول ہو رہا ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کے ذاتی خیالات پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ