’نگہبان‘ رمضان پیکج پر نواز شریف کی تصویر، قانون کیا کہتا ہے؟

مسلم لیگ ن کی ترجمان عظمیٰ بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’سپریم کورٹ کا بھی آرڈر ہے کہ جہاں تک کسی اور طریقے سے تشہیر کرنا ممکن نہ ہو تو وہاں اس طریقے سے تشہیر کی جا سکتی ہے۔‘

وزیر اعلی پنجاب کی جانب سے شروع کیے جانے والے نگہبان رمضان پیکج کے تھیلوں پر نواز شریف کی تصاویر چھپی ہوئی دیکھی جا سکتی ہیں (مریم نواز ایکس)

پاکستان مسلم لیگ ن کا کہنا ہے کہ ’نگہبان‘ رمضان پیکیج پر نواز شریف کی تصویر سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ہے جو تشہیر کے غرض سے شائع کی گئی ہے۔

مسلم لیگ ن کی ترجمان عظمیٰ بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’سپریم کورٹ کا بھی آرڈر ہے کہ جہاں تک کسی اور طریقے سے تشہیر کرنا ممکن نہ ہو تو وہاں اس طریقے سے تشہیر کی جا سکتی ہے۔‘

رمضان کی آمد سے قبل نو منتخب وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے پنجاب کے لیے ’نگہبان‘ رمضان پیکج کا اعلان کیا ہے جس کے تھیلوں پر ان کے والد اور پارٹی کے سربراہ میاں محمد نواز شریف کی تصویر موجود ہے۔

مسلم لیگ ن کی ترجمان عظمیٰ بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ نگہبان رمضان پیکج 30 ارب روپے کا ہے جسے 64 لاکھ سے زائد خاندانوں کے درمیان تقسیم کیا جائے گا۔

’ایک خاندان میں پانچ سے چھ افراد ہوتے ہیں اس حساب سے تقریباً تین کروڑ کے لگ بھگ افراد اس کا فائدہ حاصل کریں گے۔‘

عظمیٰ بخاری نے بتایا کہ اس رمضان پیکج میں پانچ چیزیں ہیں جن میں 10 کلو آٹا، دو کلو بیسن، دو کلو چینی اور دو کلو چاول شامل ہیں۔

’اس پیکج کی تقسیم میں کوئی سرکاری مداخلت نہیں ہے بلکہ یہ نئی مردم شماری کے بعد نادرا کے موجودہ ڈیٹا کے مطابق ضرورت مند لوگوں میں تقسیم کیا جائے گا۔‘

عظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ یہ ایک مکمل طور پر شفافیت کے ساتھ ہو رہا ہے اور پہلی مرتبہ پاکستان کی تاریخ میں یہ گھر گھر پہنچایا جائے گا۔

مسلم لیگ ن کی رہنما عظمیٰ بخاری کے مطابق: ’اس راشن پیک کی ترسیل کے اخراجات بھی پنجاب کومت اٹھا رہی ہے اور وہ کوئی زیادہ نہیں ہیں کیوں کہ اس طرح کسی انسان کی عزت نفس مجروح نہیں ہو رہی، کوئی لائن میں نہیں لگ رہا کسی کو انتظار نہیں کرنا پڑ رہا۔‘

سوشل میڈیا پر پنجاب حکومت کی جانب سے اس رمضان پیکج کے حوالے سے جاری کردہ معلومات کے ساتھ اس پیکج میں شامل راشن کے پیکٹس پر مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کی تصویر پرنٹ کی گئی ہے۔

میاں محمد نواز شریف اس وقت نہ تو کسی حکومتی عہدے پر فائز ہوئے ہیں اور نہ ہی وہ اس وقت مسلم لیگ ن کے صدر ہیں البتہ وہ لاہور سے قومی اسمبلی کی ایک سیٹ جیت کر رکن قومی اسمبلی ضرور بنے ہیں۔

عظمیٰ بخاری سے جب سوال کیا گیا کہ رمضان پیکج پنجاب حکومت کی طرف سے شروع کیا جا رہا ہے تو اس پر میاں نواز شریف کی تصویر کیوں بلکہ کوئی تصویر ہی کیوں؟ تو اس کے جواب میں عظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ ’جہاں تک میاں نواز شریف کی تصویر کا تعلق ہے تو میاں نواز شریف نہ صرف پاکستان مسلم لیگ ن کے سربراہ ہیں اور اس ملک کے تین مرتبہ منتخب وزیر اعظم بھی رہ چکے ہیں۔ سپریم کورٹ کا بھی آرڈر ہے کہ جہاں تک کسی اور طریقے سے تشہیر کرنا ممکن نہ ہو تو وہاں اس طریقے سے تشہیر کی جا سکتی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ اس بات پر کسی کو کوئی مسئلہ ہو نا چاہیے۔ عمران خان کا صحت کارڈ بھی اسی رنگ میں رنگا گیا تھا جو ان کی پارٹی کے جھنڈے کا رنگ تھا۔ کووڈ ہو یا احساس پروگرام سب پر عمران خان کی تصاویر لگی ہوتی تھیں اس لیے اس پر تنقید بنتی نہیں لیکن جن کو تنقید کرنی ہے وہ شوق سے کریں ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کیا حکومت کی جانب سے دیے جانے والے پیکج پر سیاسی پارٹی کے کسی سربراہ کی تصاویر لگائی جا سکتی ہیں؟

گذشتہ سال نومبر میں صوبہ پنجاب کے ہی نگراں وزیر اعلیٰ محسن نقوی پر بھی اسی سلسلے میں حافظ اسرار الحق نامی ایک شخص نے لاہور ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کی تھی کہ محسن نقوی نے لاہور میں تعمیر ہونے والے ایک فلائی اوور کی تشہیر میں اپنی تصویر لگائی تھی۔

عدالت نے نگراں وزیراعلیٰ محسن نقوی کی تصویر والے ترقیاتی منصوبوں کی اشتہاری مہم پر سرکاری خزانے سے پیسہ خرچ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور جسٹس سلطان تنویر احمد نے قرار دیا کہ عوام کے پیسے سے ترقی کرنے والوں کا احتساب ہو گا۔

کیا عوام کے پیسے کو ذاتی تشہیر کے لیے استعمال کرنے کے خلاف کوئی قانون موجود ہے؟

اس حوالے سے ایڈوکیٹ احمر مجید نے انڈپینڈنٹ اردو کوبتایا کہ ’بد قسمتی سے ایسا کوئی قانون نہیں ہے جو اس طرح کی تشہیر کو روک سکے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کام کے لیے حکومت پنجاب کے بجٹ سے ہی فنڈز جاری کیے جاتے ہیں تو ایسے کیسسز میں یہی ہو سکتا ہے کہ کوئی پارٹی یا کوئی فرد عدالت چلا جائے اور کہے کہ میاں نواز شریف کی تصویر غیر متعلقہ ہے۔

’ہاں  وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم کی تصویر لگے تو کوئی بات سمجھ بھی آتی ہے مگر میاں نواز شریف تو اس وقت صرف مسلم لیگ ن کے سربراہ ہیں۔‘

ایڈوکیٹ احمر مجید نے محسن نقوہی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ محسن نقوی پنجاب کے نگراں وزیر اعلیٰ تھے ان کا کوئی بھی سیاسی موٹیوو نہیں ہونا چاہیے تھا اور وہ اپنی کسی قسم کی تشہیر نہیں کر سکتے تھے اسی لیے عدالت نے انہیں ایسا کرنے سے روکا تھا۔

’میاں نواز شریف بھی نہ تو وزیر اعلیٰ ہیں نہ وزیر اعظم اس لیے پنجاب کے فنڈز سے شروع کیے جانے والے کسی منصوبے پر ان کی تصویر اس طرح نہیں لگنی چاہیے۔ قانون تو کوئی میسر نہیں ہے لیکن عدالت سے رجوع کر کے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔‘

ایڈوکیٹ شاہ خاور کا اس حوالے سے کہنا تھا ’اس قسم کی تشہیر الیکش کمشن کے کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے کیوں کہ ابھی کچھ سیٹیں خالی ہیں اور ان پر ضمنی انتخابات ہونے ہیں اور آپ اس سے پہلے اپنی تشہیر کررہے ہیں اور لوگوں پر اثر انداز ہونا چاہتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’قانوناً کوئی خاص رکاوٹ نہیں ہے کیوں کہ اگر دیکھا جائے تو پہلے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام پھر احساس پروگرام میں بھی عمران خان کی تصویر لگی ہوتی تھی تو اس قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے۔‘

کیا یہ الیکشن کمشن آف پاکستان کے کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی بنتی ہے؟

اس حوالے سے الیکشن کمشن پنجاب کی ترجمان ہدیٰ علی گوہر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی نہیں بنتی کیوں کہ کوڈ آف کنڈکٹ انتخابی شیڈول آنے کے بعد لاگو ہوتا ہے اور فی الحال تو میاں نواز شریف کی تصویر کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی نہیں ہے ہاں اگر ضمنی انتخابات کا شیڈول آجاتا ہے تو تب بھی وہ حلقے کی حدود میں لاگو ہوتا ہے۔‘

تجزیہ کار حسن عسکری کے خیال میں ’یہ ایک سیاسی سٹنٹ ہوتا ہے اور اب چوں کہ مسلم لیگ ن کی حکومت ہے تو وہ حکومت میں ہونے کا فائدہ اٹھا رہے ہیں اپنی قیادت کو ہائی لائٹ کر رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ کچھ عرصہ قبل نگران حکومت کے آنے سے پہلے ہائی کورٹ کا ایک فیصلہ بھی ہے کہ اخباروں میں حکومت پاکستان کی جانب سے چھپنے والے حکومتی کارناموں کے اشتہارات میں وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم کی تصویر نہیں ہونی چاہیے۔

’اب یہ سیاسی وجوہات کی بنیاد پر کر رہے ہیں اور ان پر اعتراض کرنے والا کوئی نہیں اس لیے انہیں کوئی مسئلہ بھی نہیں ہے۔ ایسے معاملے پہلے بھی عدالت میں جاتے ہیں اور وہ ہی معاملات کو حل کرتی ہے۔

’اب بھی اس معاملے کو کوئی عدالت میں چیلنج کرے گا تب ہی کوئی قدم اٹھایا جائے گا لیکن تب تک وہ کر سکتے ہیں اور وہ کر رہے ہیں۔ اور یہ پہلی حکومت نہیں ہے جو یہ کر رہی ہے سبھی حکومتیں اس قسم کی حرکتیں کرتی ہیں یہ کوئی حیران کن بات نہیں ہے۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست