50 سالوں میں حقوق نسواں کی جدوجہد میں تیزی آئی

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے وضاحت کی ہے کہ جب صنفی مساوات کی بات آتی ہے تو ہمیں اپنا پیسہ وہیں ڈالنا شروع کرنا پڑتا ہے جہاں ہمارا منہ ہوتا ہے۔

8 مارچ 2024 کو اسلام آباد میں خواتین کے عالمی دن کے موقع پر خواتین کارکن عورت مارچ سے متعلق ایک ریلی میں حصہ لے رہی ہیں (عامر قریشی/اے ایف پی)

خواتین اور لڑکیوں نے رکاوٹیں اور دقیانوسی خیالات کو ختم کیا اور زیادہ منصفانہ اور مساوات پر مبنی دنیا کی طرف پیش رفت کی ہے۔ آخر کار خواتین کے حقوق کو بنیادی اور عالمی انسانی حقوق کے طور پر تسلیم کیا گیا۔ دنیا بھر میں لاکھوں لڑکیاں حصول تعلیم میں مصروف ہیں۔ پہل کرنے والے رہنماؤں نے دنیا بھر میں مشکلات پر قابو پایا۔

لیکن اس ضمن میں پیشرفت خطرے میں ہے۔ اور مکمل مساوات اب بھی کئی سال کے فاصلے پر۔

اربوں خواتین اور لڑکیوں کو محرومیوں، ناانصافی اور امتیازی سلوک کا سامنا ہے کیوں کہ ہزاروں سال سے جاری مردوں کا غلبہ معاشروں کی تشکیل کرتا آ رہا ہے۔ صنفی بنیادوں پر مسلسل تشدد انسانیت کی بدنامی کا سبب بن رہی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق ہر سال 40 لاکھ سے زیادہ لڑکیوں کو ختنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ دنیا کے بیشتر حصوں میں خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ امتیازی سلوک مکمل طور پر قانون کے دائرے میں  ہے۔ کچھ مقامات پر اس صورت حال کی وجہ سے خواتین کا جائیداد کا مالک بننا مشکل ہو جاتا ہے۔ کچھ مقامات پر مرد بیویوں کو ازدواجی ریپ کا نشانہ بنا سکتے ہیں۔

ساتھ ہی عالمی بحران خواتین اور لڑکیوں کو سب سے زیادہ متاثر کر رہے ہیں۔ جہاں کہیں بھی تنازعات، ماحول کی تباہی، غربت یا بھوک ہوتی ہے، خواتین اور لڑکیاں سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ دنیا کے ہر خطے میں مردوں سے زیادہ خواتین بھوک کا شکار ہیں۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دونوں ممالک میں خواتین کے حقوق بشمول ان کے جنسی اور تولیدی حقوق کی مخالفت نہ صرف اس ضمن میں ہونے والی پیشرفت میں رکاوٹ ڈال رہی ہے بلکہ اسے پیچھے کی طرف لے جا رہی ہے۔

لیبر اور اور ٹوری پارٹیوں کے رہنما ان بڑے بحرانوں کے بارے میں بات کیوں نہیں کرتے جن کا برطانیہ سامنا کر رہا ہے۔

نئی ٹکنالوجیز جو عدم مساوات کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، اکثر معاملات کو بدتر بنا دیتی ہیں۔ ایسا غیر مساوی رسائی، الگورتھم میں موجود تعصب یا خواتین پر تشدد، ڈیپ فیک سے لے کر مخصوص خواتین کو ہراسانی کا ہدف بنانے تک کے عمل کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔

ہماری موجودہ رفتار کے پیش نظر خواتین کے لیے مکمل قانونی مساوات تقریباً 300 سال دور ہے۔ اسی طرح کم عمری کی شادی کا خاتمہ بھی۔ تبدیلی کی یہ شرح واضح طور پر توہین آمیز ہے۔ آدھی انسانیت اپنے حقوق کے لیے صدیوں انتظار نہیں کر سکتی۔ ہمیں اب مساوات کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب ہے پیشرفت کی رفتار کو تیز کرنا۔ یہ عمل سیاسی عزم اور سرمایہ کاری پر منحصر ہے جو اس سال خواتین کے عالمی دن کا موضوع ہے۔

ہمیں خواتین پر تشدد کے خاتمے، روزگار کے منصفانہ مواقع  یقینی بنانے، ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز، قیام امن، ماحول سے متعلق اقدامات اور معیشت کے تمام شعبوں میں خواتین کی شمولیت اور قیادت کو آگے بڑھانے کے لیے پروگراموں میں سرکاری اور نجی سطح پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔

 ہمیں دقیانوسی خیالات کے خلاف لڑنے والی خواتین اور لڑکیوں کی آواز کی سنوائی، روایات اور ثقافتی رسوم کے خلاف جدوجہد میں مصروف خواتین کے حقوق کی تنظیموں کی بھی فوری حمایت کرنا ہو گی۔ فی الحال ان تنظیموں کو بین الاقوامی ترقیاتی اخراجات کا صرف 0.1 فیصد ملتا ہے۔ یہ صورت حال تبدیل ہونا چاہیے۔

ایسا محسوس ہو سکتا ہے کہ سرمایہ کاری کو خواتین کی روزمرہ زندگی سے بہت دور کر دیا گیا  لیکن سکول جانے والی لڑکیوں کو سکول جانے والے لڑکوں کے برابر مواقع دینے کے لیے سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ ڈیجیٹل تعلیم فراہم کرنے اور مہارتوں کو فروغ دینے کے لیے سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ بچوں کی دیکھ بھال کی خدمات فراہم کرنے والوں کو سرمایہ درکار ہوتا ہے جو بنیادی طور پر مائیں ہوتی ہیں۔ سرمایہ تنخواہ لے کر  گھر سے کام کرنے کے قابل بناتا ہے۔ تمام پس منظر کی خواتین اور لڑکیوں کی مکمل شرکت کے ساتھ جامع برادریوں اور معاشروں کی تعمیر کے لیے سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مساوات کو فروغ دینے کے لیے مالی وسائل کی فراہمی درست عمل ہے  لیکن یہ مالیاتی معنی بھی رکھتا ہے۔ خواتین کو باضابطہ لیبر مارکیٹوں میں جانے میں مدد دینے سے معیشت مضبوط ہوتی ہے۔ ٹیکس محصولات میں اضافہ ہوتا ہے اور سب کے لیے مواقع بڑھتے ہیں۔

ہمیں خواتین اور لڑکیوں کے لیے درکار سرمایہ کاری کو محفوظ بنانے کے لئے تین چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ سب سے پہلے پائیدار ترقی کے لیے طویل مدتی فنانس کی دستیابی کا فروغ اور قرضوں کے بحران سے نمٹنا جو بہت سی ترقی پذیر معیشتوں کا گلا گھونٹ رہا ہے۔ بصورت دیگر مختلف ملکوں کے پاس خواتین اور لڑکیوں کے لیے سرمایہ کاری کرنے کے لئے فنڈز نہیں ہوں گے۔

ہمیں ایسے ممالک کو موقع دینے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے جو قرضے واپس کرنے ہیں اور یہ بوجھ ان کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ کثیر جہتی ترقیاتی بینکوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ معقول شرح پر نجی سرمایہ استعمال میں لائیں۔ طویل مدتی سطح پر ہمیں بین الاقوامی مالیاتی ڈھانچے میں اصلاحات کرنا ہوں گی اور اسے ترقی پذیر ممالک کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کہیں زیادہ مفید بنانا ہو گا۔

دوسرے نمبر پر ملکوں کو خواتین اور لڑکیوں کے لیے مساوات کو ترجیح بنانا ہو گا۔ یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ مساوات نہ صرف حقوق کا معاملہ ہے بلکہ پرامن اور خوشحال معاشروں کی بنیاد بھی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومتیں امتیازی سلوک کا مسئلہ مؤثر انداز میں حل کریں۔ خواتین اور لڑکیوں کی مدد کے پروگراموں پر خرچ کیا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ پالیسیاں، بجٹ اور سرمایہ کاری ان کی ضروریات کو پورا کرتی ہیں۔

تیسری بات یہ کہ ہمیں قیادت کرنے عہدوں پر خواتین کی تعداد بڑھانے کی ضرورت ہے۔ خواتین کو اقتدار کے عہدوں پر رکھنے سے ایسی پالیسیوں اور پروگراموں میں سرمایہ کاری کرنے میں مدد مل سکتی ہے جو خواتین اور لڑکیوں کی ضروریات پوری کرتے ہوں۔ مجھے خاص طور پر اس بات پر فخر ہے کہ میری مدت ملازمت کے آغاز سے اور تاریخ میں پہلی بار ہمارے پاس اقوام متحدہ کے پورے نظام میں اعلیٰ انتظامی عہدوں پر خواتین اور مردوں کی مساوی تعداد ہے۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر