بلوچستان: کیچ کا تھیلیسیمیا سینٹر جہاں 400 بچوں کا علاج ہوتا ہے

تھیلیسیمیا کیئر سینٹر کیچ کے سربراہ ارشاد عارف کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے ضلع کیچ تربت میں تقریباً 400 بچے تھیلیسیمیا کے مرض کا شکار ہیں، جن میں لڑکوں اور لڑکیوں کی تعداد بالترتیب 70 اور 30 فیصد بتائی جاتی ہے۔

تھیلیسیمیا کیئر سینٹر کیچ کے سربراہ ارشاد عارف کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے ضلع کیچ تربت میں تقریباً 400 بچے تھیلیسیمیا کے مرض کا شکار ہیں، جن میں لڑکوں اور لڑکیوں کی تعداد بالترتیب 70 اور 30 فیصد بتائی جاتی ہے۔

تھیلیسیمیا خون کی ایک موروثی بیماری ہے، جو والدین سے بچوں میں منتقل ہوتی ہے۔

ان کے مطابق تھیلیسیمیا کا شکار بچوں کے والدین کی کئی دُکھ بھری کہانیاں ہیں۔ کسی نے ننھے فرشتوں کو دفنایا ہے تو کوئی اپنے معصوموں کے لیے ایک ایک قطرہ خون حاصل کرنے کی غرض سے در در کی ٹھوکریں کھاتے ہیں۔

ارشاد عارف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس وقت ان کے پاس 10 سے 15 سال کے تقریباً 400 بچوں کا تھیلیسیمیا میجر کے تحت اندراج ہے جنہیں ہر 15 سے 20 روز کے بعد خون لگایا جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’سینٹر میں تربت کے دور دراز نواحی علاقوں سمیت ضلع پنجگور اور گوادر سے بھی بچے داخل ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’مریض بچوں کے والدین خون کے عطیات حاصل کرنے کے لیے تعلیمی اداروں میں طلبہ سے خون مانگتے ہیں۔ انہیں اپنے رشتہ داروں کی منتیں بھی کرنا پڑتی ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2019 میں قائم ہونے والا یہ تھیلیسیمیا سینٹر بھی خون کے عطیات حاصل کرنے کے لیے مختلف مقامات پر کیمپس لگاتا ہے۔

تربت سے تعلق رکھنے والی تھیلیسیمیا کا شکار 15 سالہ بچی لمحہ ظہور گورگیج نے بتایا کہ ان کے علاقے میں تھیلیسیمیا سینٹر نہ ہونے کی وجہ سے انہیں ہر ہفتے کراچی جانا پڑتا تھا۔

’اب کیچ تھیلیسیمیا کیئر سینٹر، تربت کا قیام عمل میں آگیا ہے تو مجھ سمیت صوبے میں دیگر تھیلیسیمیا کے مریض اس سے مستفید ہو رہے ہیں۔‘

ڈاکٹر مصباح منیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’تھیلیسیمیا کی دو اقسام ہیں۔ تھیلیسیما مائنر اور تھیلیسیمیا میجر۔‘

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’تھیلیسیمیا مائنر میں بچہ خون کی کمی کا شکار ہوتے ہیں مگر انہیں باہر سے خون لگوانا نہیں پڑتا جبکہ میجر خطرناک قسم ہے جس سے مریض کو عمر بھر باہر سے خون لگوانا پڑتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’تھیلیسیمیا میجر کی علامات چھ ماہ میں ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں، جن میں کھانے پینے میں کمی، دبلاپن، قد میں نمایاں کمی اور رنگ کا پیلا ہو جانا شامل ہیں۔‘ 

انہوں نے مزید بتایا کہ ’اس مرض کے تدارک کے لیے شادی سے قبل متعلقہ ٹیسٹ کروانا ضروری ہیں اور کزنز کے درمیان شادیوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی جانی چاہیے۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت