پاکستانیوں کی ذہنی صحت انڈیا اور کئی مغربی ممالک سے بہتر لیکن وجہ کیا ہے؟

بین الاقوامی ادارے ’گلوبل مائنڈ پروجیکٹ‘ کی رپورٹ کے مطابق 2023 میں مجموعی ذہنی تندرستی میں پاکستان 71 ممالک میں 56 ویں نمبر پر رہا جب کہ اس کا ہمسایہ ملک انڈیا 61 ویں اور برطانیہ اس فہرست میں 70 ویں نمبر پر رہا۔

16 اپریل 2023 کی اس تصویر میں لاہور کے ایک مصروف بازار میں لوگ خریداری میں مصروف ہیں (اے ایف پی)

ایک نئی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ پاکستانیوں کی ذہنی صحت برطانیہ اور انڈیا سمیت دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں بہتر ہے۔

حیران کن طور پر ڈومینیکن رپبلک، سری لنکا اور تنزانیہ جیسے ترقی پذیر ملک ذہنی صحت کے لحاظ سے سرفہرست تین ممالک ہیں جبکہ یورپ اور شمالی امریکہ کے ترقی یافتہ ممالک اس فہرست میں کافی نیچے دکھائی دیتے ہیں۔

بین الاقوامی ادارے ’گلوبل مائنڈ پروجیکٹ‘ کی یہ سالانہ رپورٹ گذشتہ ہفتے شائع ہوئی تھی، جس میں پوری دنیا میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والی آبادیوں کی ذہنی صحت کے بارے میں رجحانات اور بصیرت فراہم کی گئی ہے۔

یہ نتائج نو خطوں میں پھیلے ہوئے 71 ممالک میں 13 زبانوں میں حاصل کیے گئے، جو پانچ لاکھ سے زیادہ شرکا کے ڈیٹا پر مبنی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق 2023 میں مجموعی ذہنی تندرستی میں پاکستان 71 ممالک میں 56 ویں نمبر پر رہا جب کہ اس کا ہمسایہ ملک انڈیا 61 ویں اور برطانیہ اس فہرست میں 70 ویں نمبر پر رہا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ 28 فیصد پاکستانیوں کو پریشانی اور جدوجہد کا سامنا ہے جبکہ انڈیا میں یہ شرح 30 فیصد اور برطانیہ میں 35 فیصد ہے۔‌

رپورٹ کے مطابق کرونا کی وبا کے دوران نوجوان نسل، خاص طور پر 35 سال سے کم عمر افراد کی ذہنی صحت تیزی سے گری جبکہ 65 سال سے زیادہ عمر والے افراد ذہنی طور پر مستحکم رہے۔‌

دلچسپ بات یہ ہے کہ رپورٹ میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ ذہنی صحت اور معاشی خوشحالی کے درمیان کوئی باہمی تعلق ظاہر نہیں ہوا کیونکہ یورپ یا وسطی ایشیا کی کچھ امیر ریاستیں اس فہرست میں افریقہ اور لاطینی امریکہ کی غریب ریاستوں سے نیچے ہیں۔‌

اس رپورٹ میں وبائی امراض کے دیرپا اثرات کے بارے میں بھی اہم سوالات اٹھائے گئے ہیں، جن میں ہمارے رہنے اور کام کرنے کے طریقے میں تبدیلی اور موجودہ عادات جیسے ریموٹ ورکنگ، آن لائن کمیونیکیشن، الٹرا پروسیسڈ فوڈ اور سنگل یوز پلاسٹک کے استعمال جیسے عوامل نے مجموعی طور پر ہماری ذہنی صحت کو متاثر کیا ہے۔‌

ذہنی صحت کیا ہے اور اسے جانچنے کا کیا پیمانہ ہے؟‌

اسی رپورٹ کے تناظر میں معروف ماہر ذہنی امراض ڈاکٹر اسامہ بن زبیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ذہنی صحت دراصل جسم کے سب سے اہم عضو یعنی دماغ کی تندرستی کے بارے میں ہے کہ یہ کیسے کام کر رہا ہے، ذہنی صحت کسی شخص کے مزاج، اس کے رشتوں اور اس کے کام کو ظاہر کرتی ہے۔ کسی شخص کے چڑچڑے پن، رشتوں یا کام کو متاثر کرنے جیسے عوامل ذہنی صحت کی خرابی کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ اگر کسی شخص کا معیار زندگی گر رہا ہو تو یہ بھی ذہنی صحت میں خرابی کی وجہ ہو سکتی ہے یا اس کے برعکس یعنی ذہنی صحت کی خرابی سے معیار زندگی گر سکتا ہے۔‌‘

ڈاکٹر اسامہ نے کہا کہ ’ہم اچھی خوراک، ورزش اور لائف سٹائل میں تبدیلی لا کر ذہنی صحت کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ تحفظ کے احساس، بہتر کام کے ذرائع اور رشتوں یا پیار کرنے والوں کی موجودگی بھی مزاج اور ذہنی صحت میں بہتری کا سسب بن سکتی ہے۔‘

پاکستان میں حالات کیسے ساز گار رہے؟

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق پاکستان میں دماغی امراض مجموعی بیماریوں کے چار فیصد سے زیادہ ہیں۔ دماغی صحت کی خرابی میں مبتلا خواتین کا تناسب مردوں سے زیادہ ہے۔

ڈبلیو ایچ او کا اندازہ ہے کہ پاکستان میں تقریباً ڈھائی کروڑ افراد کو نفسیاتی مدد کی ضرورت ہے، لیکن دماغی صحت کے امراض کی سکریننگ اور علاج کے لیے مختص وسائل بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں فی ایک لاکھ افراد کے لیے صرف 0.19 ماہر نفسیات ہیں جو دنیا میں سب سے کم تعداد میں سے ایک ہے۔

لیکن اس کے باوجود پاکستان اس فہرست میں کیسے کئی ملکوں سے بہتر رہا، اس بارے میں ماہر نفسیات ڈاکٹر اسامہ بن زبیر نے کہا کہ ’اس رپورٹ میں پاکستان میں بہتر ذہنی صحت کے حوالے سے مثبت پیش رفت کے کئی پہلو ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے بقول ’چونکہ یہ رپورٹ کرونا وبا سے متاثرہ عرصے کے دوران مرتب کی گئی تھی اس لیے پاکستان میں دیگر ممالک خاص طور پر مغربی اور ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں زیادہ حالات اس لیے ساز گار تھے کہ یہاں جوائنٹ فیملی سسٹم اور قریبی رشتوں نے انہیں اعتماد اور تحفظ کا احساس دلایا جب کہ اس کے برعکس مغربی معاشروں میں رشتوں میں دوریاں مزید بڑھ گئیں، جس سے لوگوں کی ذہنی صحت پر منفی اثرات مزید گہرے ہو گئے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’مغرب میں ’کووڈ بے بیز‘ یعنی وہ بچے جو اس عرصے میں بڑے ہو رہے تھے، نے سخت ترین لاک ڈاؤن میں اپنے والدین کو لڑتے جھگڑتے، انہیں الکوحل اور منشیات کا استعمال کرتے دیکھا جس سے کئی گھرانے ٹوٹ گئے اور بچوں پر اس کا گہرا اثر ہوا۔‘

ڈاکٹر اسامہ نے کہا کہ ’پاکستان میں ذہنی مسائل باقی دنیا کی طرح ہی ہیں یا شاید ان سے بھی بدتر کیوں کہ یہاں ماہر نفیسات کی تعداد بھی کم ہے اور ان سے مشورہ لینے کا رواج بھی، لیکن یہاں جو فرق پیدا ہوا وہ سماجی رشتوں کی مضبوطی کا تھا، جس نے رشتوں کو جوڑے رکھا اور ایک دوسرے کی مدد کا جذبہ اور شفقت ایک حفاظتی عنصر تھا جو بچوں اور خاندان کے افراد کے لیے اس حوالے سے مدد گار ثابت ہوا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اس کی ایک اور وجہ بھی ہے اور وہ یہ کہ پاکستان کی طرح کچھ قومیں زیادہ مزاحمت رکھتی ہیں جیسا کہ پاکستان میں لوگ کئی قسم کے ٹراما سے گزرتے ہیں اور کافی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں جس سے ان میں دباؤ کو برداشت کرنے اور دماغ کو زیادہ متاثر کرنے سے روکنے کی صلاحیت بڑھ گئی ہے۔‘

مالی آسودگی کے باوجود ترقی یافتہ ممالک کیوں زیادہ متاثر ہوئے؟‌

اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر اسامہ نے کہا: ’ہماری کتابیں اور سائنسی تحقیق کہتی ہے کہ مالی آسودگی کا خوشی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ خوشی کا تعلق آپ کے رشتوں، پیار کے جذبے اور خاندان سے ہوتا ہے۔ انسانی نفسیات کے مطابق مالی خودمختاری یا آسودگی ایک خاص حد تک اہم ہے لیکن یہ ذہنی صحت کے لیے اتنی اہم نہیں ہے۔ اہم آپ کے تعلقات، رشتے، خوراک، ورزش اور لائف سٹائل ہے۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت