لاہور کے مال روڈ پر قائم ایچی سن کالج ملک کے معروف ترین تعلیمی اداروں میں شمار ہوتا ہے اور پاکستان کی کئی معروف شخصیات، جن میں سیاست دان بھی شامل ہیں، یہیں سے فارغ التحصیل ہیں۔
ایچی سن کالج کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ یہ صرف امرا، بزنس مین، سیاست دان، بیورو کریٹس اور دیگر صاحب حیثیت خاندانوں کے بچوں کے لیے ہی بنا ہے۔
ادارے کی ویب سائٹ کے مطابق سابق صدر پاکستان سردار فاروق احمد خان لغاری، سابق وزرائے اعظم ملک فیروز خان نون، میر ظفر اللہ خان جمالی، عمران خان، بہت سے صوبائی وزرائے اعلیٰ اور گورنرز اور قومی اسمبلی کے سابق سپیکر سردار ایاز صادق، سابق وزرا شاہ محمود قریشی، پرویز خٹک اور ہاشم جواں بخت یہاں سے فارغ التحصیل ہیں۔
معروف وکلا جن میں جسٹس منصور علی شاہ (سپریم کورٹ)، طارق خواجہ رحیم، اعتزاز احسن اور سلمان اکرم راجہ شامل ہیں، سب اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ایچی سن نے انہیں اس مقام پر پہنچانے میں بہت اہم کردار کیا۔
کچھ اور بااثر شخصیات جن میں یوسف صلاح الدین، نواب افتخار علی خان پٹودی (انڈین کرکٹ ٹیم کے کپتان)، اعجاز الحسن (پاکستان کے معروف سینیئر آرٹسٹ)، سید بابر علی (کاروباری رہنما اور فلاحی شخصیت) جیسے مشہور افراد نے بھی کسی زمانے میں ایچی سن کا کوٹ پہنا تھا۔
اس کالج کی تاریخ قیام پاکستان سے پہلے شروع ہوتی ہے۔ کالج کی ویب سائٹ کے مطابق: ’ایچی سن کالج انگریزوں نے ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے کے طور پر قائم کیا تھا جہاں پنجاب کے حکمران، سربراہوں کے رشتہ داروں، اچھے خاندان کے نوجوان اور نابالغوں کو کورٹ آف وارڈز کی سرپرستی میں تعلیم دی جا سکے۔‘
اس تعلیمی ادارے کی بنیاد امبالہ کے وارڈز کالج کی مدد سے 1864 میں رکھی گئی، جب یہاں صرف 12 لڑکوں کو داخلہ دیا گیا۔ ایچی سن کالج کو دو جنوری 1886 کو پنجاب چیفس کالج کا نام دیا گیا تھا۔
کالج کی موجودہ عمارت کا سنگ بنیاد تین نومبر 1886 کو ارل آف ڈفرن اینڈ آوا، وائسرائے اور گورنر جنرل آف انڈیا نے نمائندہ اسمبلی کی ایک بہت بڑی تعداد، جن میں یورپی اور مقامی، بشمول ڈیوک اور ڈچز آف کناٹ، کاؤنٹیس آف ڈفرن، سر چارلس ایچی سن، صوبے کے حکمران سربراہ شامل تھے، کی موجودگی میں رکھا۔
13 نومبر 1886 کو اس کا نام چیفس کالج سے تبدیل کر کے ایچی سن کالج رکھا گیا، اس نام کی وجہ سر چارلس امپرسٹن ایچی سن کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنا تھا، جن کی کوششوں سے یہ کالج قائم ہوا تھا۔
دو ایکڑ کے رقبے پر پھیلے اس تعلیمی ادارے میں پڑھنے والے طلبہ کی تعداد اس وقت تین ہزار ہے۔
کالج کی تنظیم کو دیکھا جائے تو اس میں سب سے پہلا نام گورنر پنجاب کا آتا ہے، جن کے نیچے ایک بورڈ آف گورنرز ہوتا ہے، اس کے بعد پرنسپل، وائس پرنسپل اور ان کے نیچے کام کرنے والی مختلف کمیٹیاں اور پھر جونیئر، سینیئر اور پریپ سیکشنز اور دیگر شعبہ جات کے سربراہان آتے ہیں۔
ایچی سن 19ویں اور 20ویں صدی کے اوائل میں تو انگریزی پبلک سکول رہا لیکن اب یہاں نئے دور کے نئے تقاضوں کے پیش نظر تعلیم دی جاتی ہے اور یہاں کے لڑکوں کو پاکستان سمیت اعلیٰ غیر ملکی یونیورسٹیوں میں داخلے کے لیے بھی تیار کیا جاتا ہے۔
عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ ایچی سن میں داخلہ لینا کوئی آسان کام نہیں کیوں کہ یہاں پر داخلے کے لیے ہر بچے کو ایک ٹیسٹ دینا ہوتا ہے۔
ٹیسٹ سے پہلے اس بچے کا میڈیکل ٹیسٹ بھی کیا جاتا ہے تاکہ یہ جانا جا سکے کہ اس کی عمر یہاں داخلے کے لیے مناسب ہے۔ داخلہ ٹیسٹ کے علاوہ یہاں بچوں اور ان کے والدین کا انٹرویو بھی لیا جاتا ہے۔
اس ٹیسٹ کی تیاری کے لیے پنجاب خاص طور پر لاہور میں مختلف سکولز کام کر رہے ہیں جہاں عام تعلیم کے ساتھ ساتھ ایچی سن کالج میں داخلہ لینے والے بچوں کے لیے الگ سے ’ایچی سن سٹریم‘ کے نام سے کلاسز لی جاتی ہیں۔
یہاں دو یا ڈھائی سال کی عمر سے بچوں کو ایچی سن کالج میں داخلے کے لیے تیار کیا جانا شروع کر دیا جاتا ہے۔
عموماً ایچی سن کالج میں چھوٹے بچوں کا داخلہ دوسری جماعت، جسے یہاں کے ٹو کہا جاتا ہے، میں کیا جاتا ہے لیکن یہ بچے ڈے سکول میں داخلہ لینے آتے ہیں۔
وہ بچے جو یہاں بورڈنگ یا ہاسٹل میں رہتے ہیں، ان کا داخلہ دوسری جماعت سے بھی چھوٹی جماعتوں میں کیا جاتا ہے اور وہ لاہور سے باہر کے ہوتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مشاہدے میں یہ بھی آیا ہے کہ ایچی سن کالج میں داخلے کے لیے جہاں مختلف سکول اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں وہیں کچھ لوگوں نے انفرادی طور پر بچوں کو ٹیوشن دینے کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے۔
ان ٹیوشنوں میں بچوں کو ایچی سن کے داخلہ ٹیسٹ کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔
ایچی سن کالج اس بات کے لیے بھی مشہور ہے کہ یہاں عموماً امرا، سیاست دان، بیورو کریٹس، کاروباری اشخاص وغیرہ کے بچوں کو ہی داخلہ دیا جاتا ہے اور یہ داخلے بچوں اور ان کے خاندانوں کے آپس کے معاشرتی تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کے لیے کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔
ایچی سن کالج کے سابق طالب علم بیرسٹر شہزاد خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’ہماری پانچ نسلیں ایچی سن سے پڑھ چکی ہیں۔ ایچی سن میں میرے جو دن گزرے وہ میری زندگی کے سنہرے دن تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پڑھائی تو ہر ادارے میں ہوتی ہے لیکن ایچی سن کالج اس لیے منفرد ہے کہ یہاں پڑھائی کے ساتھ ساتھ ہماری تربیت اور سوچ کو بھی نکھارا جاتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ بیورو کریسی، پارلیمنٹ اور ہر شعبے میں آپ کو ایچی سن سے تعلیم حاصل کرنے والے ملیں گے۔
یہاں داخلے کے حوالے سے بیرسٹر شہزاد کا کہنا تھا کہ وہ ایسے کئی سیاست دانوں، حکمرانوں اور امرا کو جانتے ہیں، جن کے بچوں کو یہاں داخلہ نہیں مل سکا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایچی سن نہ کسی اکیڈمی کا محتاج ہے، نہ کسی اثرو رسوخ کا نہ پیسے کا۔
’ہاں البتہ یہاں یہ دیکھا جاتا ہے کہ بچے کا تعلق کس خاندان سے ہے اور ان میں کتنی شرافت اور تربیت ہے اور کتنا پڑھا لکھا خاندان ہے۔ والدین کو دیکھا جاتا ہے کیوں کہ یہاں ایک معیار کو برقرار رکھنا ہے۔‘
ایچی سن کالج میں پڑھنے والے تین بچوں کی والدہ عنبر نے ایچی سن میں اپنے تجربے کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’میرا ایک بیٹا سینیئر سکول، دوسرا جونیئر اور تیسرا پریپ سکول میں ہے اور میں ان کی پڑھائی کے حوالے سے بہت مطمئن ہوں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ یہاں بچوں کو آل راؤنڈر بنایا جاتا ہے۔ یہاں غیر نصابی سرگرمیاں، کھیل، اکڈیمکس سب کچھ ہوتا ہے۔
عنبر کے مطابق: ’والدین یہاں بچوں کو داخل کروانے کے لیے اس لیے بھی بھرپور کوشش کرتے ہیں کیوں کہ اس سکول کی ایک تاریخ ہے۔ یہاں بچوں کو ان کی صلاحیتوں کے مطابق پلیٹ فارم مہیا کیا جاتا ہے کیوں کہ ہر بچہ ہر چیز میں اچھا نہیں ہو سکتا۔‘
عنبر کا کہنا تھا کہ ’ایچی سن میں بہت سی سرگرمیاں چل رہی ہوتی ہیں، اس لیے مجھے لگتا ہے کہ پڑھائی میں یہ سکول تھوڑا سا پیچھے ہے۔‘
ایچی سن کالج میں گھڑ سواری، تیراکی، ٹینس و دیگر کھیلوں کے ساتھ ساتھ کرکٹ پر بھی زور دیا جاتا ہے۔ ایک زمانے میں بیرسٹر اعتزاز احسن بھی ایچی سن کرکٹ ٹیم کے کپتان رہ چکے ہیں جبکہ تحریک انصاف کے بانی عمران خان ان کی ٹیم میں کھیلتے تھے۔
ایچی سن کالج کے اٹھارویں پرنسپل مائیکل تھامسن کا تعلق آسٹریلیا سے ہے اورسکول کی ویب سائٹ کے مطابق وہ پاکستان بننے کے بعد سے پہلے غیر ملکی پرنسپل ہیں۔
ایچی سن کالج آج کل خبروں میں ان ہی پرنسپل کی وجہ سے ہے۔ پرنسپل مائیکل تھامسن نے گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن پر سکول کے معاملات میں سیاسی مداخلت کا الزام لگاتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا۔
اس سیاسی مداخلت کا سیاق و سباق یہ تھا کہ وفاقی وزیربرائے اقتصادی امور احد چیمہ کے دو بیٹوں کی تین سال کی فیس معافی کے لیے ان کی اہلیہ نے گورنر کو درخواست دی اور گورنر پنجاب نے فیس معاف کرنے کا حکم دے دیا۔
احد چیمہ کے دو بچے ایچی سن کالج کے طالب علم تو ہیں لیکن وہ اسلام آباد میں رہتے ہیں۔
اس معاملے پر گورنر ہاؤس کے ذرائع کا کہنا تھا کہ ’گورنر کے فیس معافی کے فیصلے کا اطلاق کسی فرد واحد کی بجائے تمام ایسے والدین پر ہوگا جنہیں کسی مجبوری کے تحت کچھ عرصے کے لیے کسی دوسرے شہر منتقل ہونا پڑتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’یہ فیصلہ سازی کسی بھی طالب علم کے سکول چھوڑنے کے بعد فیس نہ لینے کے لیے کی گئی ہے۔‘
پرنسپل مائیکل تھامسن کے لیے ایچی سن کالج کے طالب علموں نے منگل کو گورنر ہاؤس کے باہر احتجاج بھی کیا اور مطالبہ کیا کہ گورنر پنجاب سکول کے معاملات میں سیاسی مداخلت نہ کریں اور پرنسپل کو ان کے عہدے پر بحال کریں۔
دوسری جانب وفاقی وزیر احد چیمہ نے اپنے بچوں کی فیس معافی کے لیے ایچی سن کالج کی فیس معافی کی پالیسی سے فائدہ اٹھانے سے انکار کر دیا ہے۔
احد چیمہ نے بھی گورنر پنجاب کو ایک خط لکھا ہے، جس میں پالیسی سے فائدہ اٹھانے سے انکار کرتے ہوئے کہا گیا کہ کالج کے پرنسپل مائیکل تھامسن نے اس معاملے پر ذاتی طور پر ان سے رابطہ کیا تھا۔
انہوں نے لکھا کہ انہیں اپنے بیٹوں کی فیسوں کے معاملے کو سلجھانے کے لیے کئی پیشکشیں دی گئی تھیں تاہم، انہوں نے کوئی بھی ’انڈر ٹیبل ڈیل‘ کرنے سے انکار کر دیا۔
انہوں نے اس معاملے میں ہونے والی اپنے خاندان کی بے عزتی کی شدید مذمت کی۔
انہوں نے گورنر پنجاب پر زور دیا کہ وہ فیس معافی کی پالیسی کو جاری رکھیں، جس سے ان کے مطابق طلبہ کو بہت فائدہ ہوا ہے۔
انہوں نے اپنے بیٹوں کی فیس معاف کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ پالیسی مستقبل میں طلبہ کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگی۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔