جسٹس تصدق جیلانی انکوائری کمیشن سے لاتعلق کیوں ہوئے؟

جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی کو اندازہ ہو گیا تھا کہ بظاہر انکوائری کمیشن کی شرائط و ضوابط چھ ججوں کے لکھے گئے خط سے ہم آہنگ نہیں۔

سابق چیف جسٹس جسٹس (ر) تصدیق حسین جیلانی (ورلڈ جسٹس پراجیکٹ)

سابق چیف جسٹس آف پاکستان تصدق حسین جیلانی نے ڈرامائی طور پر ایک رکنی انکوائری کمیشن کی سربراہی سے معذرت کر لی، جس کے نتیجہ میں چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے فوری طور پر ججوں کے خط پر آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت ازحود نوٹس لیتے ہوئے اور معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے سات رکنی لارجر بنچ تشکیل دے دیا۔

یہ بینچ بدھ سے سماعت شروع کرے گا اور اس حوالے سے اٹارنی جنرل پاکستان کو نوٹس جاری کر دیا گیا ہے۔

دراصل جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی کو جب انکوائری کمیشن کی سربراہی کی پیش کش کی گئی تھی، تو ان کو یہ تاثر دیا گیا تھا کہ یہ پیش کش سپریم کورٹ کے فل کورٹ کی ایما پر کی گئی تھی اور متفقہ طور پر ان کا نام تجویز کیا گیا تھا۔

جسٹس تصدق حسین جیلانی نے اپنے طور پر جب سپریم کورٹ کے بعض ججوں سے رابطہ کیا تو انہیں وہاں تقسیم نظر آئی۔ اس اندرونی کیفیت کو دیکھتے ہوئے انہوں نے انکوائری کمیشن کی سربراہی نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

جب انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کے خط کا گہرائی میں مطالعہ کیا اور وفاقی حکومت کے ٹرم آف ریفرنس کا جائزہ لیا تو ان کو محسوس ہوا کہ وفاقی حکومت کے عجلت میں تیار کردہ قواعد و ضوابط آئین کے آرٹیکل 209 سے متضاد ہیں اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں نے یہ خط جوڈیشل کونسل کے جج اور چیف جسٹس آف پاکستان کے نام لکھا ہے۔ 

ان کے نزدیک یہ عدالتی ترجیحات کی خلاف ورزی کے مترادف ہو گا کہ ایک ایسا معاملہ جو کہ سپریم جوڈیشل کونسل یا سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے، اس پر کمیشن بنے۔

دراصل جسٹس تصدق حسین جیلانی کو اندازہ ہو گیا تھا کہ بادی النظر میں تحقیقاتی کمیشن کے شرائط و ضوابط اس خط سے ہم آہنگ نہیں اور اداروں کے خلاف خط میں جو شکایات کی گئی تھیں، وہ ان سے الگ تھلگ رہنا چاہتے تھے کیونکہ معاملہ انتہائی سنگین ہے اور آئینی و قانونی طور پر ایسے دوراہے پر کھڑا ہے کہ اس پر رائے دینا یا سفارشات پیش کرنا ان کے لیے ممکن نہ تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وفاقی حکومت کی وزارت انصاف و قانون میں ایسے مسودے تیار کرنے کے ماہرین کا فقدان ہے۔ مجھے یاد ہے کہ 1985 میں جب آٹھویں ترمیم کے مسودے میں علی مرحوم کی اعلیٰ قابلیت کو دیکھتے ہوئے جنرل ضیا الحق نے ان کو تاحیات ملازمت میں توسیع کے احکامات جاری کر دیے تھے۔

صرف وہی نہیں، ان کے بعد اس پائے کے آئینی ماہر گزرے ہیں لیکن اب غیر معروف افسر ہی اس معاملے کو دیکھتے ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کے خط کے معاملے پر وکلا برادری تقسیم ہو گئی ہے اور 500 سے زائد وکلا نے سپریم کورٹ سے آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت حساس اداروں کی جانب سے عدالتی امور میں مداخلت کے الزامات پر ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک رکنی تحقیقاتی کمیشن جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں مسترد کر دیا تھا اور حیران کن امر یہ بھی تھا کہ ان وکلا کی فہرست میں جسٹس تصدق حسین جیلانی کے صاحبزادے ثاقب جیلانی بھی شامل تھے۔

گویا گھر میں بھی ان کی مخالفت کی جا رہی تھی۔ میری رائے میں تصدق حسین جیلانی نے اپنے صاحبزادے کی ناراضگی کا گہرا اثر لیا اور کمیشن کی سربراہی قبول کرنے کے بعد معذرت کر لی۔

تصدق حسین جیلانی کا نام جولائی 2018 کے انتخابات کے دوران بطور نگران وزیراعظم بھی گردش کرتا رہا، لیکن مقتدر حلقوں نے سابق چیف جسٹس ناصر الملک پر اچانک اتفاق کر لیا۔

اندرونی طور پر عمران خان نے بھی ان کے نام پر رضامندی کا اظہار کر دیا تھا کیونکہ اگست 2014 کے دھرنے کے دوران تحریک انصاف کے سینیئر نائب صدر جاوید ہاشمی نے انکشاف کیا تھا کہ عمران خان سابق چیف جسٹس ناصر الملک سے رابطے میں ہیں۔

جاوید ہاشمی کے الزامات پر تحریک انصاف کی قیادت نے انہیں پارٹی سے فارغ کر دیا تھا اور بعد ازاں وہ قومی اسمبلی کی نشست سے بھی مستعفی ہو گئے تھے۔

وفاقی حکومت ان دنوں حساس اداروں کے ماضی کے اہم فیصلوں کی وجہ سے تاریک گلی میں کھڑی نظر آ رہی ہے کیونکہ فیض آباد دھرنا مقدمے پر قائم ہونے والے کمیشن نے اپنی تحقیقات مکمل کر لی ہیں، جس میں یہ باور کیا جا رہا ہے کہ آئی ایس آئی کے انٹرنل ونگ کے سربراہ میجر جنرل فیض حمید تحریک لبیک پارٹی کے فیض آباد دھرنے کے مبینہ معمار تھے۔

یہ رپورٹ بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے اور اس کے نتائج بہت دور تک جائیں گے کیونکہ رپورٹ کی نقول کابینہ ڈویژن، اٹارنی جنرل پاکستان اور رجسٹرار سپریم کورٹ کو جمع کروائی جائیں گی۔

سپریم کورٹ کے اس وقت کے جج اور موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے عدالتی فیصلے کی روشنی میں کمیشن بنایا گیا تھا تاکہ ان افراد کی نشان دہی کی جائے، جنہوں نے چھ سال قبل دھرنے کی منصوبہ بندی، مالی معاونت اور حمایت کی تھی۔

دراصل یہ معاملات ریاستی مفاد کے خلاف جا رہے ہیں۔ ریاست اپنے مفاد میں اہم ترین فیصلے کرتی ہے اور حساس اداروں کو ریاستی مفاد سب سے اوّلین حیثیت رکھنا ہوتا ہے اور آئین کے آرٹیکل 5 کو مدنظر رکھا جائے تو ریاست کے قومی مفاد میں بعض ایسے اقدامات کرنے پڑتے ہیں جو بظاہر آئین سے ماورا ہوتے ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر