کھینچ میری فوٹو

اہم شخصیات عوام مدد کرتے وقت ویڈیو اور تصویر لینا نہیں بھولتیں اور لوگوں کو مجبور کرتے ہیں کہ ہماری تعریف کرو گے، ہمارے ساتھ تصویر بناو گے، ہمارے ٹک ٹاک میں آؤ گے، تب مدد ملے گی ورنہ چلتے بنو۔

23 مارچ2024  ایک غیر سرکاری فلاحی تنظیم دعا فاؤنڈیشن کے رضاکار کراچی میں رمضان المبارک کے مقدس مہینے کے دوران ماہی گیروں میں راشن تقسیم کر رہے ہیں (اے ایف پی)

پہلے کچھ یوں ہوا کرتا تھا کہ جن کا تعلق شوبز انڈسٹری سے ہوا کرتا تھا جن میں گلوکار، اداکار، صدا کار، ہدایت کار، موسیقار سرفہرست ہوا کرتے تھے وہ اپنے شائقین کی دلچپسی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی نجی زندگی کے پہلووں کو بھی پبلک کیا کرتے تھے۔

ان کی تصاویر، گھر کی تزئین و آرائش، ان کے اہل خانہ اور سیر و تفریح کی روداد رسالوں میں شائع ہوا کرتی تھیں۔ جن کے پاس کیرئیر کے آغاز میں خاص مالیاتی اثاثے نہیں تھے وہ خود نمائی اور سکینڈلوں سے خود کو شائقین میں زندہ رکھنے کی کوشش کرتے۔

کبھی دل توڑنا تو کبھی دل جوڑنا یہ ادائیں بھی مداحوں پر قیامت ڈھایا کرتی تھیں۔ فلمی ستاروں کے فینز ان رسالہ جات کے شائع ہونے کا انتظار کرتے اپنے ستاروں کے بارے میں جان کر خوش ہوتے ان کو آئیڈیل بنا لیتے۔

یہاں تک کہ ان کی محبت میں گرفتار ہو کر اپنی جان تک لینے کی کوشش کرتے۔ ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے گھنٹوں سٹوڈیو کے باہر انتظار کرتےجب دیدار نہ ہوتا تو یہ ہی رسالے اور میگزین ہی ان کی ڈھارس ہوتے۔

اس کے بعد جب ٹی وی آیا تو بڑی سکرین اور چھوٹی سکرین کے ستاروں کی زندگی عشق، لڑائیاں، دوستیاں، سکینڈل، سبھی خبروں کا حصہ بننے لگے۔

یہاں تک کہ شو شروع ہو گئے اور شوبز کے ستارے اپنی نجی زندگی کو مکمل پبلک کرنا شروع ہو گئے کیونکہ یہ ان کی مقبولیت اور کمائی کا ذریعہ بن گئی۔ ان نے کیا پہنا، کیا کھایا، کس گاڑی میں سفر کیا وغیرہ وغیرہ سب نشر ہونے لگا۔

اخبارات میں پیج تھری اور ٹی وی پر میگزین شو آنا شروع ہو گئے جہاں اداکاروں معروف شخصیات اور کھلاڑیوں کی زندگی کے بارے میں ان کے مداحوں کو مطلع کیا جاتا ہے۔ پہلے اس اداکار گلوکار یہ کیا کرتے تھے پھر کھلاڑی بھی اس دوڑ میں شامل ہو گئے۔ چاہے کھیل کے میدان میں وہ صفر پر آوٹ ہوتا ہو لیکن ماڈلنگ کمرشلز کی اس کے پاس بھرمار اور یہ ہی بہت سے کرکٹروں کو مالدار کر گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ٹی وی اخبار کے بعد سوشل میڈیا نے سب کچھ تبدیل کر دیا۔ صرف اداکار نہیں عام عوام بھی اپنی زندگی کی نجی پہلو پبلک کرنے لگے۔ یوٹیوب ہو یا انسٹا گرام فیس بک ہو یا ٹوئٹر، سینپ چیٹ ہو یا ٹک ٹاک، دولت، امارت، سیر و تفریح، قیمتی ملبوسات کی نمائش عام بات ہے۔ کوئی کھانے بنا رہا ہے کوئی مزاحیہ باتیں کر رہا ہے کوئی دیسی زندگی پر وی لاگ کر رہا ہے۔ اس سے نئے ستاروں نے جنم لیا جنہیں ہم سوشل میڈیا سٹار یا انفلوئنسر کہتے ہیں۔

اب کسی کو شہرت کے لیے سکرین ٹی وی یا فلم کی ضرورت نہیں، بس کوئی بھی تصویر یا ویڈیو یا کوئی ٹک ٹاک ریل آپ کو مشہور بنا سکتی ہے۔ یہاں مشہور ہونے کے لیے امیر ہونا شرط نہیں بس آپ کا کانٹیٹ وائرل ہو جائے یہی کافی ہے۔

شہرت کی اس بہتی گنگا میں اب سیاست دان بھی ہاتھ دھو رہے ہیں۔ مودی جی اس ٹرینڈ کو جنوبی ایشیا میں لے کر آئے۔ اب پاکستانی سیاست دان بھی اس میں کود پڑے ہیں۔ اپنے دوروں میٹنگز، مذہبی رسومات، جہاز کے سفر، ہیلی کی رائیڈ سب سے تصاویر میڈیا پر جاری ہونے لگی۔

 پاکستانی سیاست دان پہلے اپنی نجی زندگی اپنے اہل عیال کو اپنی سیاسی زندگی میں ساتھ نہیں رکھتے تھے، لیکن اس بار تو پورے خاندان کے خاندان اسمبلی پہنچ گئے ہیں۔

اس کے ساتھ بہت سوں کو ہر وقت لائم لائٹ میں بھی رہنے کا شوق رہتا ہے۔ چاہے ادارے ہو یا سیاست دان، سبھی نے اپنا اپنا باقاعدہ عملہ رکھا ہوا ہے، سوشل میڈیا سیل بنا رکھا ہے۔ ہر روز نئی تصاویر اور ویڈیوز خبریں جاری کی جاتی ہیں۔

گرمی اور دھوپ میں روزے کی حالت میں غربا دھکے کھانے کے بعد پیسے لے رہے تھے۔ دینے والوں نے بہت فخر سے اس کو ٹوئٹر، انسٹا گرام، ٹک ٹاک پر شیئر کیا کہ ہم کتنا دردِ دل رکھتے ہیں۔ ہیش ٹیگ ’غریبوں کی مدد‘ وغیرہ وغیرہ۔

پر پی آر، ہیش ٹیگز ویڈیوز کا مقابلہ جو اس بار دیکھا جا رہا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ سستے آٹے کی بوریاں رکھ کر پریس کانفرنس، کسی کو امداد دیتے ہوئے اپنی تصویر اس پر آویزاں کرنا، امداد دیتے وقت بےبس لوگوں کو مجبور کرنا کہ وہ تصاویر اور ویڈیو میں لازمی آئیں۔

لوگوں کو دھکے دینا، ان پر لاٹھی چارج کرنا، عام بات ہوتی جا رہی ہے۔ کل ایک بااثر شخصیت کی ویڈیو دیکھی۔ ہاتھوں میں سو روپے کے نوٹوں کے بنڈل تھے۔ ہرغریب کو ایک ایک نوٹ دیا جا رہا تھا، ساتھ ان کا گارڈ مفت میں دھکا بھی دے رہا تھا۔

ہمارے ملک میں غربت کا یہ عالم ہے کہ سو روپیہ لینے کے لیے ایک طویل قطار تھی۔ وہ گرمی اور دھوپ میں روزے کی حالت میں گارڈز کے ہاتھوں دھکے کھانے کے بعد یہ پیسے لے رہے تھے۔ دینے والوں نے بہت فخر سے اس کو ٹوئٹر، انسٹا گرام، ٹک ٹاک پر شیئر کیا کہ ہم کتنا دردِ دل رکھتے ہیں۔ ہیش ٹیگ ’غریبوں کی مدد‘ وغیرہ وغیرہ۔

اہم شخصیات یا صاحب ثروت لوگ عوام مدد کرتے وقت ویڈیو اور تصویر لینا نہیں بھولتے۔ خود دارمسکین غریب عوام نہیں چاہتے کہ ان کی تصویر بنے لیکن امداد دینے کے لیے یہ شرط رکھ دی جاتی ہے کہ ہماری تعریف کرو گے، ہمارے ساتھ تصویر بناو گے، ہمارے ٹک ٹاک میں آؤ گے، تو مدد ملے گی ورنہ چلتے بنو۔

جن کا کام ہے کہ وہ عوام کی مدد کریں وہ بھی اداکاری میں مصروف ہو گئے ہیں۔ کون سا سوٹ پہننا ہے، کس گاڑی میں سواری کرنی ہے، کتنی قیمتی گھڑی اور جوتا پہن کر عوام میں جانا ہے۔ یہ بےحسی اور غیر سنجیدگی کی علامت ہے۔

اداکار اگر خود نمائی کریں تو یہ شوبز کا حصہ ہے، لیکن قانون کے رکھوالے اور قانون سازی کرنے والے یہ سب کرنا شروع کر دیں یہ امر افسوسناک ہے۔

کچھ بھی کرنے سے پہلے ٹک ٹاک اور فوٹو شوٹ لازمی طور پر شروع ہو جاتے ہیں۔ چاہے اس سے کسی کی بھی عزت نفس مجروح ہو، لیکن امیر اشرافیہ نے اپنی خودنمائی کی تسکین تو کرنی ہی ہے۔ یہ لوگ کام کب کرتے ہوں گے جب سارا وقت تو پی آر سٹنٹس، فوٹو شوٹس اور ٹک ٹاک کی ریکارڈنگ میں گزر جاتا ہے۔

ووٹ دیتے ہوئے ویڈیو، اسمبلی میں داخل ہوتے ہوئے ٹک ٹاک واپس جاتے ہوئے تصاویر، دوران سیشن سیلفیز، یہ سب قانون سازی کب کرتے ہوں گے۔

یہی صورت حال رہی تو کہیں ہر ادارے اور اسمبلی میں ایک ٹک ٹاک ڈویژن اور سیلفی بوتھ بنانے کی قرارداد نہ آ جائے۔

یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ