آئی ایم ایف سے قرض کے نئے پروگرام پر مذاکرات کر رہے ہیں: پاکستانی وزیر خزانہ

آئی ایم ایف کے ترجمان نے کہا ہے کہ پاکستان کی ’نئی حکومت نے ایک نئے پروگرام میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے اور فنڈ کا عملہ اس پروگرام پر ابتدائی بات چیت میں شامل ہونے کے لیے تیار ہے۔‘

پاکستان کے وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے ملک کے اقتصادی اصلاحاتی پروگرام کی حمایت کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)  کے ساتھ اربوں ڈالر قرض کے ایک نئے معاہدے پر بات چیت شروع کر دی ہے۔

پاکستانی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے پیر کو بتایا کہ پاکستان ادائیگیوں کے توازن کے بحران سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ نو ماہ کے تین ارب ڈالر قرض کے پروگرام کے اختتام کے قریب ہے۔ اس بحران نے پاکستان کو گذشتہ موسم گرما میں ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچا دیا تھا۔

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے واشنگٹن میں ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ اس معاہدے کی 1.1 ارب ڈالر کی حتمی قسط کے اس ماہ کے آخر میں منظور ہونے کا امکان ہے، پاکستان نے ’اربوں‘ ڈالر کے ایک نئے اور کئی سالوں پر محیط آئی ایم ایف قرضہ پروگرام کے لیے بات چیت شروع کر دی ہے۔

ایک سابق بینکر محمد اورنگزیب جنہوں نے گذشتہ ماہ پاکستان کے وزیر خزانہ کا عہدہ سنبھالا ہے نے کہا کہ ’مارکیٹ کا اعتماد، مارکیٹ کا جذبہ اس مالی سال میں بہت زیادہ بہتر شکل میں ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ اس مقصد کے لیے ہے کہ اس ہفتے کے دوران، ہم نے فنڈ کے ساتھ ایک وسیع اور توسیعی پروگرام میں شامل ہونے کے لیے بات چیت شروع کی ہے۔‘

آئی ایم ایف کے ایک ترجمان نے بتایا کہ ان کے ادارے کی توجہ ’موجودہ سٹینڈ بائی ایگریمنٹ پروگرام کی تکمیل پر ہے‘ جو نو ماہ سے جاری ہے اور جلد ہی مکمل ہونے والا ہے۔

ترجمان نے مزید کہا کہ ’نئی حکومت نے ایک نئے پروگرام میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے اور فنڈ کا عملہ ایک نئے پروگرام پر ابتدائی بات چیت میں شامل ہونے کے لیے تیار ہے۔‘

تین سالہ پروگرام

واشنگٹن کے اپنے دورے کے دوران، اورنگزیب آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے زیر اہتمام موسم بہار کے اجلاسوں میں بھی شرکت کریں گے، جس کا آغاز آج (منگل) سے ہوگا، جس کے دو واضح مقاصد ہیں: موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ممالک کی مدد کرنا اور دنیا کے سب سے زیادہ مقروض ممالک کی مدد کرنا۔

یہ اجلاس جو مرکزی بینکرز، وزرا، ماہرین تعلیم، نجی شعبے اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو مالیات اور ترقی کے معاملے پر تبادلہ خیال کرنے اور اپنے تجربات کا اظہار کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ اس اجلاس میں آئی ایم ایف کے اپنے تازہ ترین ورلڈ اکنامک آؤٹ جاری کردہ تازہ ترین ورلڈ اکنامک آؤٹ لُک پر بھی گفتگو کا موقع ملکے گا۔

پاکستان میں میاں محمد شہباز شریف کی قیادت میں ابھرنے والی مخلوط حکومت کو اب کمر کس کے غیر مقبول اقدامات لینے کا بیڑا اٹھا کر معاشی تبدیلی کی انجینئرنگ کا کام سونپا گیا ہے۔

پاکستانی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ’ جیسا کہ میں دیکھ رہا ہوں، اصلاحات کے ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے میں مدد کرنے کے لیے مجھے لگتا ہے کہ ہم کم از کم تین سالہ پروگرام کے لیے درخواست دیں گے کیوں کہ ہمیں اس کی ضرورت ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’جب ہم مئی کے دوسرے یا تیسرے ہفتے تک پہنچیں گے تو مجھے لگتا ہے کہ ہم ان مذاکرات کی حتمی شکل میں جانا شروع کر دیں گے۔‘

امریکہ چین مخالفت کا توازن

پاکستان کے امریکہ اور چین دونوں کے ساتھ قریبی اقتصادی تعلقات ہیں، جس نے اسے ایک مشکل پوزیشن میں ڈال دیا ہے کیوں کہ دونوں ممالک ایک مہنگی تجارتی جنگ کا آغاز کر چکے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جب ان سے پوچھا گیا کہ شریف حکومت دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کیسے استوار رکھے تو اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ’ہمارے نقطہ نظر سے یہ ایک آخری آخری بحث ہونی چاہیے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’امریکہ ہمارا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے اور اس نے ہمیشہ ہماری مدد کی ہے، سرمایہ کاری کے معاملے میں ہمیشہ ہماری مدد کی ہے لہذا یہ ہمیشہ پاکستان کے لیے ایک بہت ہی اہم رشتہ رہے گا۔‘

پاکستانی وزیر خزانہ نے تقریباً 1,860 میل طویل چین پاکستان اقتصادی راہداری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا جو چین کو بحیرہ عرب تک رسائی فراہم کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ ’دوسری طرف، بہت سی سرمایہ کاری، خاص طور پر بنیادی ڈھانچے میں، سی پیک  کے ذریعے آئی۔‘

اورنگزیب نے کہا کہ پاکستان کے لیے تجارتی جنگ میں اسی طرح کا کردار ادا کرنے کا ایک ’بہت اچھا موقع‘ ہے جیسا کہ ویتنام جیسے ممالک، جو کچھ چینی سامان پر محصولات کے نفاذ کے بعد امریکہ کو اپنی برآمدات کو ڈرامائی طور پر بڑھانے میں کامیاب رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’ہمارے پاس پہلے سے ہی کام کرنے کی چند مثالیں موجود ہیں۔ لیکن ہمیں جو کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ واقعی اس کو بڑھانا ہے۔‘

اصلاحتی پروگرام

پچھلی حکومت کی جانب سے ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے پروگرام کے ایک حصے کے طور پر، پاکستان اپنی خراب کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے سرکاری اداروں (ایس ای اوز) کو فروخت کرنے کے لیے نجکاری کی مہم کے وسط میں ہے۔

اس فہرست میں پہلا نام پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) ہے، جو ملک کی فلیگ کیریئر ہے۔

اورنگزیب نے کہا ’ہمیں اگلے مہینے یا اس سے زیادہ میں ممکنہ بولی دہندگان کی دلچسپی کے حوالے سے معلوم ہو جائے گا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہماری خواہش ہے کہ اس پرائیویٹائزیشن سے گزریں اور جون کے آخر تک اسے فنشنگ لائن پر لے جائیں۔‘

اگر پی آئی اے کی نجکاری حکومت کے لیے اچھی رہی تو دوسری کمپنیاں جلد ہی اس کی پیروی کر سکتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم ایک پوری پائپ لائن بنا رہے ہیں، اگلے دو سالوں میں ہم واقعی اس میں تیزی لانا چاہتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت