پاکستان کی تجربہ کار اور نیوزی لینڈ کی قدرے نوجوان ٹیموں کے درمیان جمعرات سے ٹی ٹوئنٹی میچوں کی سریز کا راولپنڈی میں آغاز ہونے جا رہا ہے۔
نیوزی لینڈ اس سیریز کے دوران پاکستان کے خلاف پانچ ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلے گا جس میں سے تین راولپنڈی اور دو لاہور میں کھیلے جائیں گے۔
مہمان ٹیم کی قیادت مائیکل بریسویل کر رہے ہیں جبکہ پاکستان کی قیادت انڈیا میں ہوئے ورلڈ کپ کے بعد ہٹائے جانے والے اور امریکہ، ویسٹ انڈیز میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ سے قبل دوبارہ کپتانی سنبھالنے والے بابر اعظم کر رہے ہیں۔
دونوں ہی ٹیموں کے لیے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کو دیکھتے ہوئے یہ سیریز انتہائی اہم ہے لیکن بظاہر نیوزی لینڈ کی ٹیم کو دیکھ کر ایسا لگ نہیں رہا۔
پاکستان کا دورے پر آنے والی نیوزی لینڈ کی ٹیم میں کوئی بڑا نام شامل نہیں ہے۔ فقط فِن ایلن اور ایڈم ملن دو ایسے کھلاڑی تھے جو فرنٹ لائن میں شامل ہیں لیکن نامعلوم انجریز کے باعث یہ دونوں کھلاڑی بھی اب دستیاب نہیں ہیں۔
اگرچہ معروف کھلاڑیوں کی عدم شمولیت کی وجہ واضح ہے کہ وہ آئی پی ایل میں حصہ لے رہے ہیں لیکن گذشتہ سال بھی انہی دنوں جب نیوزی لینڈ نے پاکستان کا دورہ کیا تھا تو مذکورہ کھلاڑی آئی پی ایل کے باعث نہیں آئے تھے۔
چونکہ کرکٹ نیوزی لینڈ میں ثانوی حیثیت رکھتی ہے اور کسی بھی کھلاڑی کو قومی ٹیم کی طرف سے کھیلنے کے لیے مجبور نہیں کیا جاتا ہے اس لیے جو کھلاڑی دستیاب تھے وہ آگئے۔
ٹیم کے دوسرے کھلاڑیوں میں اش سوڈھی، جمی نیشم اور صرف ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والے ٹام بلنڈل بھی شامل ہیں جو بحالت مجبوری شامل سکواڈ میں شامل ہوئے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے کھلاڑیوں کے علاوہ مارک چیپمین اور ٹم سائفرٹ بھی سکواڈ کا حصہ ہیں۔ مارک چیپمین تو ٹی ٹوئنٹی میں سنچری بھی بنا چکے ہیں جبکہ سائفرٹ پی ایس ایل میں کراچی کنگز کا حصہ تھے اور پلاٹینیئم کیٹیگری میں تھے۔
کیویز کی بولنگ بہت زیادہ کمزور دکھائی دے رہی ہے اور زیادہ انحصار اش سوڈھی اور بریسویل پر ہوگا۔ اش سوڈھی کچھ تبگ کر سکتے ہیں۔ فاسٹ بولنگ میں بین سیرز ہی کچھ تجربہ کار ہیں ورنہ بنجمن لسٹر اور ولیم رور کے لیے یہ سیریز امتحان ہوگی۔
پاکستان پوری طاقت سے اترے گا
نیوزی لینڈ کی نوجوان ٹیم کے خلاف پاکستان نے اپنی پوری قوت کا مظاہرہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اگرچہ یہ بات بہت عرصہ پہلے سے سب کو معلوم تھی کہ نیوزی لینڈ کی ’کمزور ترین‘ ٹیم دورے پر آئے گی لیکن سیلیکشن کمیٹی نے نوجوان کھلاڑیوں کے بجائے تجربہ کار کھلاڑیوں پر بھروسہ کرنا مناسب سمجھا ہے۔
بابر اعظم متنازعہ انداز میں دوبارہ کپتان بن چکے ہیں۔ انہیں قائد بنانے کے لیے جس طرح شاہین شاہ آفریدی کو ہٹایا گیا وہ نیا ہے اور نہ انوکھا۔ پاکستان کرکٹ کی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔
بابر اعظم دنیا کے چند بہترین بلے بازوں میں سے ایک ہیں اور منفرد ریکارڈز کے حامل ہیں۔ جس پائے کے وہ بلے باز ہیں اس لحاظ سے ان کا ایک کمزور ترین ٹیم کے خلاف کھیلنا خود ان کے ساتھ ناانصافی ہے۔
ان کی بیٹنگ کے جوہر اگر مضبوط ٹیم کے خلاف کھلتے ہیں تو داد و تحسین کے مستحق ہیں لیکن موجودہ کیوی ٹیم کے خلاف ان کے لیے مناسب تھا کہ وہ ٹیم سے علیحدگی اختیار کرتے اور کپتانی کسی اور کو سونپ کر خود کچھ دن آرام کرتے۔
اسی طرح محمد رضوان، فخر زمان، نسیم شاہ، افتخار احمد، عماد وسیم، محمد عامر، اسامہ میر، شاداب خان کی جگہ نوجوان کھلاڑی کھلائے جا سکتے تھے جن میں عمیر یوسف، مہران ممتاز، حنین شاہ، قاسم اکرم اور بہت سے ایسے کھلاڑی ہیں جو مستقبل میں پاکستان کے لیے اثاثہ بن سکتے ہیں، انہیں موقع دے کر اعتماد دیا جا سکتا تھا۔
سیلیکشن کمیٹی نے صرف شاہین شاہ آفریدی کو پہلے دو میچ نہ کھلانے کا عندیہ دیا ہے جو بہرحال ایک بہتر فیصلہ ہے۔
پاکستان ٹیم کے ممکنہ کھلاڑیوں میں عثمان خان شامل ہوں گے جو متحدہ عرب امارات کی قومی ٹیم چھوڑ کر پاکستانی ٹیم کا حصہ بنے ہیں لیکن ان کی بیٹنگ پوزیشن بہت بڑا سوال ہے۔
صائم ایوب اور بابر اعظم کی موجودگی میں رضوان کی جگہ مشکل سے بن رہی ہے تو عثمان کس نمبر پر کھیلیں گے اور پھر فخر زمان بھی ہیں۔ شاید ٹیم کی بیٹنگ اب اوپنرز ہی چلائیں گے۔
بولنگ میں ریٹائرمنٹ سے واپس آنے والے محمد عامر کے لیے موقع ہوگا کہ وہ ورلڈکپ کے لیے جگہ بنا لیں تاہم پاکستان کی بولنگ مہلک اور خطرناک ہوگی۔ نسیم شاہ، شاہین آفریدی، زمان خان کسی بھی بیٹنگ لائن کو تہس نہس کر سکتے ہیں۔