سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس کا جمعرات کو کہنا ہے کہ وہ ایکس کی بندش پر پاکستانی حکومت کی تشویش اور تحفظات کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے۔
ایکس کے گلوبل گورنمنٹ افیئرز اکاؤنٹ پر یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ایک روز قبل ہی حکومت پاکستان نے یہ موقف اپنایا ہے کہ پاکستان میں ایکس کو قومی سلامتی کے خدشات پر بند کیا گیا ہے۔
بدھ کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرائی گئی اس رپورٹ میں وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ ایکس کی بندش کا فیصلہ قومی سلامتی اور امن و امان کی صورت حال کو برقرار رکھنے کے لیے کیا گیا۔
وزارت داخلہ نے بدھ کو تسلیم کیا کہ اس نے ’قومی سلامتی کے خدشات‘ کے پیش نظر رواں سال فروری میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس کو عارضی طور پر بند کرنے کا حکم دیا تھا۔
پاکستان میں صارفین فروری کے وسط سے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) استعمال کرنے میں مسائل کی اطلاع دے رہے ہیں، لیکن حکومت نے بدھ سے قبل اس حوالے سے کوئی وضاحت نہیں کی تھی۔
وفاقی وزارت داخلہ نے بدھ کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرائی گئی تحریری رپورٹ میں ایکس کی بندش کی وجہ کا انکشاف کیا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ’چیف جسٹس سپریم کورٹ قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ایکس کے کچھ اکاؤنٹس پر نفرت انگیز پروپیگنڈا مہم چلائی گئی، جو اس کی عارضی بندش کا سبب بنا لہٰذا ایکس کی بندش کا فیصلہ قومی سلامتی اور امن و امان کی صورت حال کو برقرار رکھنے کے لیے کیا گیا۔‘
رپورٹ میں مزید کہا گیا ’یہاں یہ بتانا بہت مناسب ہے کہ ایکس کی حکومت پاکستان کی قانونی ہدایات پر عمل نہ کرنے اور اس کے پلیٹ فارم کے غلط استعمال سے متعلق خدشات کو دور کرنے کی وجہ سے پابندی عائد کرنے کی ضرورت پڑی۔‘
رپورٹ کے مطابق: ’ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے ایکس سے چیف جسٹس کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والے اکاؤنٹس پر پابندی کی درخواست کی، لیکن ایکس حکام نے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی درخواست کو نظر انداز کیا اور جواب تک نہ دیا۔
’ایکس حکام کا عدم تعاون ایکس کے خلاف ریگولیٹری اقدامات بشمول عارضی بندش کا جواز ہے۔‘
رواں برس 17 فروری کو وزارت داخلہ نے ایکس پر پابندی عائد کی تھی جس کے بعد اس بندش کے خلاف مقامی صحافی احتشام عباسی نے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی۔
اس کیس کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزارت داخلہ سے ایکس پر پابندی کی وجوہات پر رپورٹ طلب کی تھی۔
وزارت داخلہ نے رپورٹ میں عدالت سے استدعا کی کہ ’درخواست گزار کا کوئی بنیادی حق سلب نہیں ہوا اور درخواست کو ابتدائی مراحل میں ہی خارج کر دیا جائے، ایکس کی بندش کے خلاف درخواست قانون و حقائق کے منافی ہے، قابل سماعت ہے ہی نہیں، ایکس پاکستان میں رجسٹرڈ ہے نہ ہی پاکستانی قوانین کی پاسداری کے معاہدے کا شراکت دار ہے۔‘
21 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ’انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درخواست پر وزارت داخلہ نے 17 فروری، 2024 کو ایکس کی بندش کے احکامات جاری کیے، شدت پسندانہ نظریات اور جھوٹی معلومات کی ترسیل کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رپورٹ کے مطابق ’چند شر پسند عناصر کی جانب سے امن و امان کو نقصان پہنچانے، عدم استحکام کو فروغ دینے کے لیے ایکس کو بطور آلہ استعمال کیا جا رہا ہے، ایکس کی بندش کا مقصد آزادی اظہار رائے یا معلومات تک رسائی پر قدغن لگانا نہیں ہے۔‘
رپورٹ میں کہا گیا کہ ’ایکس پر بندش کا مقصد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا قانون کے مطابق ذمہ دارانہ استعمال ہے، وزارت داخلہ پاکستان کے شہریوں کی محافظ اور قومی استحکام کی ذمہ دار ہے، اس سے قبل حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹک ٹاک پر بھی بین لگایا گیا تھا، ٹک ٹاک کی جانب سے پاکستانی قانون کی پاسداری کے معاہدے پر دستخط کے بعد بین کو ختم کردیا گیا تھا۔‘
دوسری جانب ایکس پر پابندی کے خلاف کیس کرنے والے وکیل معیز جعفری نے بتایا کہ سندھ ہائی کورٹ نے حکومت کو ایک ہفتے کے اندر ایکس سروسز بحال کرنے کی ہدایت کی ہے۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق معیز جعفری نے بتایا کہ عدالت نے کہا کہ اگر حکومت ایسا کرنے میں ناکام رہی تو عدالت مناسب حکم جاری کرے گی۔