مسلم لیگ ن کو 2024 میں 90 کی دہائی کی سیاست کرتے دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کیا ن لیگ کی طبعی عمر پوری ہو چکی ہے؟
ایک خبر میرے سامنے رکھی ہے کہ وزیر اعلی پنجاب اور نواز شریف صاحب نے لاہور میں روٹی کی قیمتوں کا ’خود‘ جائزہ لیا۔ وہ تندوروں پر چلے گئے اور عوام انہیں اپنے درمیان دیکھ کر حیران رہ گئے۔ یہ خالصتاً 90 کی دہائی کی ہنر کاری ہے جب اخبارات میں اہتمام سے دو چار کالمی خبر لگوا کر لوگوں کو حیران کر دیا جاتا تھا۔
وہ زمانے بیت گئے جب حکمران اپنی رعایا کو صرف عید کے موقع پر محل کے جھروکوں سے دیدار کرایا کرتے تھے اور پھر رعایا کو یہ حکمران کبھی کبھار اپنے بیچ کہیں نظر آ جاتے تو رعایا حیران رہ جاتی۔ اب جدید زمانہ ہے۔ ٹاک شوز میں غیر ضروری نقاب کشائی نے اہل سیاست کو جھروکوں سے نکال لیا ہے۔ یہ ’حیران رہ گئے‘ والا تکلف اب بالکل غیر ضروری ہے۔
معاشرہ آگے بڑھ گیا ہے، روایتی سیاست بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ اسے یہ بی سمجھ نہیں آ رہی کہ لوگوں کو حیران کرنے کے لیے اب کچھ نیا کر کے دکھا دے۔ وہ 90 کی دہائی کی دو کالمی خبر سے 2024 کے اس نوجوان کو حیران کرنا چاہتی ہے جس کا اپنا موبائل پورا میڈیا ہاؤس ہے جہاں ہر دوسرا نوجوان خود ایک سینیئر تجزیہ کار ہے۔
مسلم لیگ ن کا اصل چیلنج کیا ہے؟ ہمارے سامنے ہے کہ ترقیاتی کاموں میں ن لیگ کا کوئی مقابل نہیں، لیکن موٹر وے، میٹرو، اورنج ٹرین اور سی پیک جیسے منصوبوں کے باوجود اسے ہدف ملامت بنایا جاتا ہے اور عمران خان دور اقتدار میں کچھ نہ کرنے کے باوجود مقبول ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟
اس کا مطلب یہ ہے کہ اس معاشرے میں کارکردگی اہم نہیں ہے، پروپیگنڈا اہم ہے۔ آپ کام بھلے ٹکے کا نہ کرو لیکن آپ پروپیگنڈے میں اتنے ماہر ہوں کہ اپنے جھوٹ کو بھی سچ بنا لیں تو میدان آپ کا ہوتا ہے۔ یہ کوئی فرضی بات نہیں، تحریک انصاف نے پروپیگنڈے کی غیر معمولی مہارت سے ثابت کر دکھایا ہے کہ کارکردگی اہم نہیں ہے بلکہ اہم یہ ہے کہ آپ کی پروپیگنڈا کرنے کی صلاحیت کتنی ہے۔
اس چیلنج سے صرف ن لیگ ہی کو نہیں، پیپلز پارٹی کو بھی نبٹنا ہے۔ لیکن معاملہ یہ ہے کہ یہ دونوں جماعتیں زمینی حقائق سے بہت دور کھڑی ہیں اور انہیں اس بات کا ادراک ہی نہیں کہ وقت کا موسم بدل چکا ہے۔
جب سیاست اپنے اپنے گھرانے کی اسیر ہو جاتی ہے تو یہی ہوتا ہے۔ نیا خون جب سیاسی جماعتوں میں شامل نہیں ہوتا تو ان جماعتوں میں ارتقا کا عمل رک جاتا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں جب جدید و قدیم کا توازن نہ رہے تو یہ جوہڑ بن جاتی ہیں۔ ہماری جماعتوں پر یہی حادثہ بیت چکا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چنانچہ ان میں نہ کوئی ندرت فکر ہے نہ کوئی تنوع۔ جو عمران کرتے رہے یہ وہی کر کے اس کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔ عمران خان نے جلسووں میں مویسقی دی، یہ بھی لے آئے۔ عمران نے پارٹی پرچم لوگوں کے گلے میں ڈالا، باقیوں نے بھی یہی شروع کر دیا۔ ’کپتان چپل‘ مارکیٹ میں آئی تو جے یو آئی کے وابستگان ’قائد چپل‘ لے آئے۔ عمران نے نوجوانوں کی شرٹ پر دستخط کیے تو سراج الحق صاحب بھی یہی کرنے لگے۔
اہل یاست کو سوچنا ہو گا کہ گڈ گورننس کس چیز کا نام ہے؟ زمینی حقائق سے بصیرت کے ساتھ نبٹنے کا یا محض سوشل میڈیا پر داد شجاعت دینے کا؟ کیمرا مینوں کا ایک لشکر لے کر ٹک ٹاکرز کی طرح چھاپے مارنا، نوٹس لے لینا، اور ’عوام کو حیران کر دینا‘ گڈ کورننس نہیں۔
اب وزیر اعلیٰ اگر او پی ڈی میں مریضوں کی لمبی لائن دیکھ کر برہمی کا اظہار کرتی ہیں اور ایم ایس پر برستی ہیں تو لوگ اس سے متاثر نہیں ہوتے۔ 90 کی دہائی میں یہ کام چل جاتا ہو گا۔ اب لوگ سوال پوچھتے ہیں کہ حکومتوں نے صحت کے لیے بجٹ کتنا رکھا ہوا ہے۔ ایم ایس کو ڈانٹ کر سرخرو ہونے کے زمانے بیت گئے۔ لوگ اب زیادہ باخبر ہیں۔
سستی روٹی ہی کو لے لیجیے۔ ویڈیوز بھی بن گئیں، لوگ میاں صاحب کو اپنے بیچ دیکھ حیران بھی رہ گئے، سوشل میڈیا پر کارروائی بھی ڈل گئی لیکن کیا اس سے کوئی خیر بھی برآمد ہو گا؟
اصل مسئلہ تندوروں پر خود تشریف لے جانے کا نہیں، اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا حکومت کے پاس اشیا کی قیمتوں پر کنٹرول کا کوئی میکنزم ہے؟
سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ کوئی میکنزم نہیں ہے۔ بجلی، گیس پٹرولیم، ادویات ہر چیز کی قیمت مارکیٹ پر چھوڑ دی گئی ہے۔ حکومتیں یا تو اس کارٹل کا حصہ ہیں یا ان کے آگے بے بس ہیں۔
کارروئی ڈالنے کے لیے البتہ حکمران ’بذات خود‘ نان بائیوں کے تنوروں پر پہنچ جاتے ہیں اور اہل دربار ’کاسے‘ کو خبر بناتے ہیں کہ رعایا اپنے غریب پرور حکمرانوں کو اپنے درمیان دیکھ کر ’حیران‘ رہ گئی۔
90 کی دہائی میں تو شاید یہ ہنر کاری کامیاب ہو جاتی ہو لیکن موجودہ دور میں اس کا کامیاب ہونا مشکل ہے۔ ہر عہد کے اپنے تقاضے اور اپنی نفسیاتی ضروریات ہوتی ہیں۔ انہیں مدنظر نہ رکھا جائے تو وہی ہوتا ہے جو ہمارے ساتھ ہو رہا ہے:
معاشرہ آگے بڑھ گیا ہے، روایتی سیاست بہت پیچھے رہ گئی ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔