ایوب خان کا دور تھا اور آٹے کی قیمت کچھ بڑھ گئی تو عوامی شاعر حبیب جالب نے شعر لکھا ؎ 20 روپے من آٹا / اور اس پر بھی سناٹا۔
آج جالب ہوتے تو نجانے کیا لکھتے کہ آٹا چھ ہزار روپے من ہو چکا ہے۔ پاکستان کے ادارہ برائے شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق صرف گذشتہ ایک سال کے دوران آٹے کی قیمت میں دو گنا سے زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔ 17 اگست 2023 کو پاکستان میں 20 کلو آٹے کی قیمت 2830 روپے تھی جبکہ پچھلے سال اسی ہفتے میں یہ قیمت 1221 روپے تھی۔
حکومت نے مارکیٹ کھلی چھوڑ دی ہے؟
آٹا عوام کی بنیادی ضرورت ہے اور پاکستان کی تقریباً 40 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، جس کے لیے دو وقت کی روٹی کمانا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اس لیے ماضی میں حکومتوں کی اولین ترجیح رہی ہے کہ وہ آٹے پر عوام کو سبسڈی دیں تاکہ انہیں دو وقت کی روٹی با آسانی میسر ہو سکے، مگر اب معاشی بحران کی وجہ سے حکومت کے لیے اس سبسڈی کو جاری رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔
دوسری طرف پاکستان فلور ملز مالکان کا موقف ہے کہ مارکیٹ میں آٹے کی قیمت بڑھنے کا تعلق سبسڈی سے نہیں بلکہ بد انتظامی اور لاتعلقی سے ہے۔
پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین عاصم رضا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’آٹے کی قیمت میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ گندم کی امدادی قیمت میں اضافہ ہے جو پچھلے سال 2200 روپے من تھی اور اس سال 3900 روپے من کر دی گئی۔ اس کی وجہ سے آٹا اب ان قیمتوں پر نہیں مل سکتا، جن قیمتوں پر پچھلے سال مل رہا تھا۔
’اب حکومت نے پالیسی بدل دی ہے، اس نے کہا ہے کہ وہ اب پورے پاکستان کی 25 کروڑ آبادی کو سستا آٹا دینے کی بجائے صرف ان لوگوں سستا آٹا دے گی جو بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت رجسٹرڈ ہیں۔‘
بقول عاصم رضا: ’پہلے یہ ہوتا تھا کہ حکومت نے آٹے کی قیمت کی ایک حد مقرر کر رکھی تھی، مثال کے طور پر آگر آٹے کی فی من قیمت 2200 مقرر تھی اور جب مارکیٹ میں وہ سو دو سو روپے بڑھ جاتا تھا تو حکومت فوراً حرکت میں آتی اور فلو ملوں کو اپنے ذخائر سے اضافی گندم کی فراہمی شروع کر دیتی تھی مگر اب ایسا نہیں ہو رہا۔ اب سرکاری ریٹ 3900 روپے من ہے اور مارکیٹ میں آج کا ریٹ 4650 روپے من ہے۔ جب فلور ملز کو مارکیٹ میں مہنگی گندم ملے گی تو آٹا بھی مہنگا ہو گا۔‘
کیا واقعی گندم کی بمپر پیداوار ہوئی ہے؟
پاکستان میں گذشتہ دو دہائیوں کے دوران بہتر بیجوں اور جدید کاشت کاری کے طریقوں سے گندم کی پیداوار میں 75 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 1990 میں گندم کی سالانہ پیداوار ایک کروڑ 44 لاکھ ٹن تھی جو اس سال بڑھ کر دو کروڑ 75 لاکھ ٹن ہو چکی ہے اور حکومت کے بقول یہ ’بمپر‘ پیداوار ہے۔
تاہم پاکستان کسان بورڈ کے چیئرمین شوکت چدھڑ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ بجلی اور کھاد کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے کسان کے لیے گندم کی فصل اگانا اب منافع بخش نہیں رہا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اگرچہ حکومت نے گندم کی امدادی قیمت میں اس سال اضافہ کیا ہے مگر یہ اضافہ اس سال نومبر میں گندم کی کاشت کے لیے سود مند نہیں رہا کیونکہ کسان مہنگی فصل اگا کر سستے داموں کیوں بیچے گا، اس لیے اگر حکومت نے اس طرف توجہ نہیں دی تو اگلے سال گندم کی پیداوار مزید کم ہو جائے گی اور آٹے کی قیمت اور زیادہ بڑھے گی۔‘
انہوں نے آٹے کی حالیہ قیمتوں میں اضافے کی وجہ ذخیرہ اندوزی کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’اس سال حکومت نے 45 ملین ٹن گندم کی خریداری کا ہدف مقرر کیا تھا مگر وہ صرف 30 ملین ٹن ہی خرید سکی ہے، جس کی وجہ سے اب آٹے کی قیمت کا انحصار ذخیرہ اندوزوں کے ہاتھ میں آ گیا ہے، جس میں فلور مل مالکان بھی شامل ہیں۔‘
دوسری طرف عاصم رضا کا کہنا ہے کہ ’حکومت کی جانب سے غیر ضروری پکڑ دھکڑ اور گندم کی نقل و حمل میں پابندیوں کی وجہ سے مارکیٹ میں یہ تاثر قائم ہوا کہ گندم کی پیداوار کم ہوئی ہے، جس کی وجہ سے گندم کی ذخیرہ اندوزی شروع ہوئی۔‘
گندم کی درآمد میں مشکلات
اس سال 30 اپریل کو اُس وقت کے وزیراعظم شہباز شریف نے ایک بیان جاری کیا تھا کہ پاکستان میں گندم کی ریکارڈ پیداوار ہوئی ہے، لیکن پاکستان میں گندم کی کھپت کو دیکھتے ہوئے جو تقریباً تین کروڑ 20 لاکھ ٹن ہے، اسے اپنی ضرورت کا 10 فیصد سے زیادہ دوسرے ممالک سے در آمد کرنا پڑتا ہے، مگر پاکستان کی خراب معاشی صورت حال کی وجہ سے مارکیٹ میں ڈالر کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں، جس سے درآمد کنندگان کا اعتماد بحال نہیں ہو رہا کہ وہ گندم درآمد کر سکیں۔
طارق فاروق سیٹھی کی راولپنڈی میں پانچ فلور ملیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’2019 میں ہم نے 37 لاکھ ٹن گندم درآمد کی تھی مگر اب مسئلہ یہ ہے کہ جب ہم بینکوں کے پاس ایل سی کھولنے جاتے ہیں تو وہ ڈراتے ہیں کہ معلوم نہیں کہ ادائیگی کے وقت ہم ڈالر دے سکیں یا نہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اس سیزن میں ابھی تک کراچی کی بندر گاہ پر گندم کے چار جہاز آف لوڈ ہو سکے ہیں۔ ہر جہاز میں 60 ہزار ٹن گندم ہوتی ہے۔ یہ گندم کراچی پہنچ کر ہمیں 3850 روپے من پڑتی ہے۔‘
طارق فاروق نے مزید کہا کہ ’اگر گندم کی درآمد کے لیے حالات ساز گار ہوں تو مارکیٹ میں آٹے کی قیمتوں کی خاطر خواہ کمی ہو سکتی ہے مگر یہ حالات مسلسل خراب ہو رہے ہیں کیونکہ صرف چند دنوں میں ڈالر کی قیمت میں 15 روپے کا اضافہ ہو چکا ہے۔‘