افغانستان کی خاتون بریک ڈانسر منیزہ تالاش پہلی ایتھلیٹ ہیں جو جولائی میں شروع ہونے والے پیرس اولمپکس میں حصہ لینے والی پناہ گزینوں کی اولمپک ٹیم کا حصہ ہوں گی۔
یہ اعلان انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی (آئی او سی) کے صدر تھامس باخ نے سوئٹزرلینڈ کے شہر لوزان سے لائیو سٹریمنگ تقریب کے دوران کیا۔
تھامس نے کہا: ’اولمپک کھیلوں میں شرکت کے ساتھ، آپ برداشت اور عمدگی کی انسانی صلاحیت کا مظاہرہ کریں گی۔
’اس سے دنیا بھر کے 10 کروڑ سے زیادہ بے گھر افراد کو امید کا پیغام جائے گا۔ ساتھ ہی آپ دنیا بھر کے اربوں لوگوں کو پناہ گزینوں کے بحران کی شدت سے آگاہ کریں گی۔‘
ٹیم کی تشکیل کو آئی او سی ایگزیکٹیو بورڈ نے منظور کیا تھا اور یہ متعدد معیارات پر مبنی تھا، جس میں سب سے پہلے اور اہم ، ہر کھلاڑی کی کھیلوں کی کارکردگی اور ان کی پناہ گزین کی حیثیت شامل ہے، جس کی تصدیق اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے یو این ایچ سی آر نے کی ہے۔
ٹیم کے زیادہ تر کھلاڑی سکالرشپ پروگرام کے ذریعے آئی او سی کی مدد سے پناہ گزینوں میں سے منتخب ہوئے ہیں۔
کھیلوں کی تبدیلی لانے کی طاقت
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہ گزین فلیپو گرینڈی نے کہا کہ پناہ گزینوں کی اولمپک ٹیم کو جنگ اور ظلم و ستم سے بے گھر ہونے والے تمام افراد کی برداشت، ہمت اور امیدوں کی یاد دہانی کرانی چاہیے۔
’ٹیم ہمیں یہ بھی یاد دلاتی ہے کہ کھیل ان لوگوں کے لیے تبدیلی لا سکتا ہے جن کی زندگیاں اکثر تکلیف دہ حالات سے متاثر ہوئی ہیں۔ یہ تبدیلی صرف اولمپیئنز کے لیے ہی نہیں بلکہ ہر ایک کے لیے ہے۔‘
ریو ڈی جنیرو میں 2016 کے اولمپکس میں ڈیبیو کرنے والی پناہ گزین ٹیم کی تیسری شرکت پیرس اولمپکس میں ہوگی اور اس سال کا سکواڈ اب تک کا سب سے بڑا ہے۔
اپنا پرچم لہرانا
پہلی بار ٹیم اولمپک پرچم کی بجائے اپنے نشان کے تحت مقابلہ کرے گی جس کے دستخط سفید پس منظر پر نیلے، سیاہ، سرخ، پیلے اور سبز رنگ کے پانچ انٹرلاکڈ انگوٹھیاں ہوں گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کی علامت میں ایک دل ہے جو تیروں سے گھرا ہوا ہے اور اولمپک پرچم جیسے ہی رنگوں کا استعمال کرتا ہے۔
ٹوکیو میں 2020 کے اولمپکس میں سائیکلنگ میں حصہ لینے والے افغانستان سے تعلق رکھنے والے ٹیم کے کپتان معصوم علی زادہ نے کہا، ’ہماری اپنی علامت ہونے سے اپنائیت کا احساس پیدا ہوتا ہے اور ہمیں 100 ملین سے زیادہ لوگوں کی آبادی کے لیے کھڑے ہونے کا بھی اختیار ملتا ہے جو اسی تجربے کو شیئر کرتے ہیں۔‘
جنوری 2021 میں کابل کے ایک مکسڈ مارشل آرٹس سینٹر میں ایک سیشن کے آغاز قبل تالاش نے روئٹرز کو بتایا تھا کہ ’میں مختلف بننا چاہتی ہوں۔ میں افغانستان میں ایک اچھا رول ماڈل بننا چاہتی ہوں۔‘
کئی قدامت پسند افغان رقص نہیں کرتے اور اس سے بھی زیادہ خواتین کی عوامی شرکت پر سخت اعتراض کرتے ہیں۔
منیزہ تالاش کا کہنا تھا کہ انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں ملی ہیں، لیکن وہ اب بھی رقص کر رہی ہیں۔
طالبان کی کابل آمد سے ڈیڑھ سال قبل کابل میں قائم ہونے والے ایک کلب میں وہ تربیت حاصل کرتی تھیں، جن میں ہیڈ سپن بھی شامل ہیں، جو بریک ڈانسنگ کی قسمیں ہیں۔ لیکن طالبان آمد کے بعد یہ کلب بند ہوگیا ہے۔
1970 کی دہائی میں نیو یارک شہر کی سڑکوں پر پیدا ہونے والی اس آرٹ کی شکل بریک ڈانسنگ چار کھیلوں میں سے ایک ہے، جس میں سکیٹ بورڈنگ، سپورٹس کلائمبنگ اور سرفنگ شامل ہیں کو بین الاقوامی اولمپک کمیٹی نے حال ہی میں نوجوانوں اور زیادہ شہری ناظرین کو راغب کرنے کی کوشش میں 2024 میں پیرس کھیلوں میں شامل کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
منیزہ کہتی ہیں کہ یہ (کھیل) بہت مشکل ہے اور آپ کو سیکھنے اور اسے کرنے کے لیے مضبوط جسم کی ضرورت ہوتی ہے۔
’یہ آسان نہیں، لیکن کچھ بھی آسان نہیں ہے، آپ سیکھ سکتے ہیں اور مقصد حاصل کرسکتے ہیں۔ کچھ چالوں میں ایک کھلاڑی کو اپنے پورے جسم کا وزن ایک بازو پر اٹھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔‘