لاہور: الیکٹرانک فضلہ تلف کرنے کے لیے طلبہ کی عوامی مہم

فارمن کریسچن یونیورسٹی (ایف سی) لاہور کے طلبہ نے الیکٹرانک فضلہ تلف کرنے یا ری سائیکل کرنے کی آگاہی مہم شروع کی ہے۔

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی الیکٹرانک فضلہ یا ’ای ویسٹ‘  ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کی ایک بڑی وجہ سمجھا جار رہا ہے، جس کے باعث لاہور کے طلبہ نے اس حوالے سے ایک آگاہی مہم کا آغاز کیا ہے۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ایک رپورٹ کے مطابق پانچ سو 36 لاکھ ٹن دنیا میں الیکٹرانک فضلہ موجود ہے اور اس میں سالانہ 26 لاکھ ٹن کا اضافہ ہو رہا ہے۔ جس میں سے صرف 17.4 فیصد دوبارہ قابل استعمال بنایا جا رہا ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہےکہ دنیا میں 61 سو ٹن سے زائد ای ویسٹ موجود ہے۔ جس کے مطابق فی کس آٹھ  کلو ای ویسٹ پیدا ہو رہا ہے۔

پاکستان میں بھی الیکٹرانک سکریپ ہر سال چار لاکھ ہزار33 ٹن موجود ہے جس میں سالانہ اضافہ ہو رہا ہے۔

لیکن اسے جمع کر کے تلف کرنے یا ری سائیکل کرنے کا مقامی سطح پر جامع ںظام نہیں ہے۔

ہر سال دنیا بھر میں 14 اکتوبر کو ای ویسٹ سے متعلق آگاہی کے لیے عالمی دن بھی منایا جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ فارمن کریسچن یونیورسٹی (ایف سی) لاہور کے طلبہ نے الیکٹرانک فضلہ تلف کرنے یا ری سائیکل کرنے کی آگاہی مہم شروع کی ہے۔

ان طلبہ کی جانب سے الیکٹرانک، کمپیوٹرز اور موبائل مارکیٹوں میں باکس رکھے ہیں تاکہ دکان دار اور شہری الیکٹرانک سکریپ ان ڈبوں میں ڈالیں تاکہ اسے ادھر ادھر نہ پھینکا جائے۔

اس کے علاوہ اپنی یونیورسٹی کے طلبہ وطالبات کو یہ آگاہی دینے کے لیے بھی کیمپ لگایا گیا۔

طلبہ کی جانب سے کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، موبائل یا الیکٹرانک کی دوسری اشیا کے ناکارہ پرزوں اور ٹوٹے پھوٹے حصوں کو ناکارہ ہونے پر آس پاس یا کوڑے میں پھینکنے کی بجائے ڈبوں میں ڈال کر ڈمپنگ سٹیشن تک پہنچانے کی آگاہی بھی دی گئی۔

طلبہ کا کہنا ہے کہ ’یونیورسٹی میں ہمیں مختلف پروجیکٹس بنانے کی اسائنمنٹس دی گئیں۔ ہم نے آٹھ طلبہ پر مشتمل گروپ بنا کر طے کیا کہ ہم ای ویسٹ سے متعلق آگاہی پر کام کریں گے تاکہ اسائنمنٹ کے ساتھ لوگوں کو یہ آگاہی بھی دیں کہ الیکٹرانک سکریپ ماحول کو متاثر کر رہا ہے۔

’لہذا ہم نے موبائل، لیپ ٹاپ شاپس اور یونیورسٹی میں باکس رکھے اور آگاہی فراہم کی کہ الیکٹرانک فضلے کو ڈمپ کرنے یا ری سائیکل کرنے کے لیے ان میں ڈالیں۔‘

دوکان داروں کے مطابق: ’الیکٹرانک کی اشیا، موبائل، لیپ ٹاپ کی مرمت کے دوران جو پرزے یا ٹکڑے ناکارہ ہو جاتے ہیں انہیں کوڑے میں پھینک دیتے ہیں۔ لیکن میٹل کی اشیا کباڑیے خرید لیتے ہیں۔ مگر پلاسٹک کے کی بورڈ، ٹوٹے پھوٹے پرزے، تاریں، شیشہ وغیرہ کوڑے میں ڈالنا پڑتا ہے۔ ہم جمع کرتے رہتے ہیں اور ہفتے بعد اسے کوڑے میں پھینک دیتے ہیں۔ البتہ کوڑے سے پلاسٹک وغیرہ جمع کرنے والے بھی اٹھا لیتے ہیں اور انتظامیہ کی کوڑا اٹھانے والی گاڑیاں بھی اٹھا کر لے جاتی ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان میں موبائل کے استعمال پر کام کرنے والی ایک تنظیم ڈیٹا پورٹل کے مطابق ملک میں آٹھ کروڑ سے زائد موبائل استعمال کیے جا رہے ہیں۔ اور اس سے نصف تعداد میں کمپیوٹرز اور لیپ ٹاپ استعمال ہوتے ہیں۔

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے اعداد وشمار کے مطابق دو کروڑ 50  لاکھ تک موبائل مقامی طور پر بنتے ہیں یا اسیمبل ہوتے ہیں۔ باقی درآمدی فون استعمال ہو رہے ہیں۔

وفاقی ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق جنوری 2024 میں موبائل فون کی درآمد  میں10.7 فیصد اضافہ ہوا۔ دسمبر 2023 کی 17 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کی درآمد کے مقابلے میں جنوری 2024 میں سیل فون کی درآمد 19 کروڑ 49 لاکھ ڈالر رہی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ سالانہ بنیاد پر موبائل فون سیٹس کی درآمد میں 275.15 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان دنیا کے ان ملکوں میں بھی شامل ہے جہاں بڑی تعداد میں دوسرے ممالک سے پرانا الیکٹرانک کا سامان، موبائل، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ و دیگر اشیا درآمد ہوتی ہیں۔

لہذا جس طرح الیکٹرانک اشیا کا استعمال بڑھتا جارہا ہے اسی لحاظ سے ہر سال ای ویسٹ میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

پنجاب پولوشن کنٹرول بورڈ کی جانب سے پنجاب میں ای ویسٹ مینجمنٹ کے لیے 2016 میں رولز بنائے گئے تھے۔ جن کے مطابق الیکٹرانک سکریپ جمع کرنے کا نظام، پھر اسے ری سائیکل کرنے والی انڈسٹریز کو فروغ دینا اور اسے تلف کرنے کے قوائد وضوابط طے کیے گئے تھے۔

اس حوالے سے کام تو جاری ہے لیکن ابھی تک مکمل طور پر اسے ٹھکانے لگانے کا بندوبست نہیں ہوسکا۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات