کیا بجٹ منظوری کے بعد پیپلز پارٹی کی کابینہ میں واپسی ممکن ہے؟

وزیراعظم شہباز شریف اور ان کی جماعت کے کئی سینیئر رہنما پیپلز پارٹی کو کابینہ کا حصہ بننے کی دعوت دے چکے ہیں، تاہم پیپلز پارٹی نے اس حوالے سے اب تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے۔

تین مارچ، 2024 کی اس تصویر میں وزیراعظم پاکستان شہباز شریف قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران موجودہ صدر آصف علی زرداری سے مصافحہ کرتے ہوئے۔ آصف علی زرداری نو مارچ کو دوسری بار صدر پاکستان منتخب ہوئے(اے ایف پی)

حالیہ وفاقی بجٹ پیش کیے جانے کے موقعے پر حکمران جماعت میں شامل پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے اس پر تنقید کی گئی تھی لیکن اب بجٹ کے بعد اس جماعت کی کابینہ میں شمولیت کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے، جس کا حتمی فیصلہ پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی ہی کرے گی۔

بجٹ پیش کیے جانے سے ایک ماہ قبل ہی پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے اعلیٰ سطح کے وفود کی بجٹ اور کابینہ میں شمولیت سے متعلق ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ وزیراعظم شہباز شریف اور ان کی جماعت کے کئی سینیئر رہنما پیپلز پارٹی کو کابینہ کا حصہ بننے کی دعوت دے چکے ہیں۔

وزیراعظم شہباز شریف کے سیاسی مشیر رانا ثنا اللہ کہتے ہیں کہ اگلے مالی سال کے بجٹ کی منظوری سے قبل ان کی جماعت اپنی اتحادی جماعت پی پی پی کو اعتماد میں لینا یقینی بنائے گی۔

پیر کو فیصل آباد میں میڈیا سے گفتگو میں رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ’پیپلز پارٹی کے بجٹ کے حوالے سے تحفظات درست ہیں لیکن ایسا نہیں ہے کہ ان سے بالکل بھی مشاورت نہیں کی گئی۔ ہاں یہ درست ہے کہ ہماری طرف سے کچھ کمی تھی، تاہم ابھی بجٹ فائنل نہیں ہوا، ہم ابھی بھی تجاویز لے رہے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’حکومت جون کے اختتام سے پہلے پیپلز پارٹی کی مکمل تسلی کے بعد بجٹ پاس کروائے گی۔‘ تاہم پیپلز پارٹی نے اس حوالے سے اب تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے۔

پیپلز پارٹی کی سینیئر رہنما شازیہ مری بجٹ پر اپنی جماعت کے تحفظات ظاہر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ پیپلز پارٹی کا کابینہ میں شمولیت کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’یہ سچ ہے کہ پیپلز پارٹی کو بجٹ پر تحفظات ہیں اور مسلم لیگ ن نے حکومت بننے کے وقت مذاکرات میں جو وعدے کیے تھے وہ بھی پورے نہیں کیے۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’پیپلز پارٹی کے پاس آئینی عہدے موجود ہیں اور مسلم لیگ ن کی طرف سے پیشکش موجود ہے لیکن وفاقی کابینہ میں جانے کا پیپلز پارٹی کا تاحال کوئی ارادہ نہیں ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پیپلزپارٹی رہنما پلوشہ خان بھی کہتی ہیں کہ ’فی الحال کابینہ میں شمولیت کا کوئی پلان نہیں ہے۔‘ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں مزید کہا کہ ’یہ فیصلہ کابینہ کا حصہ بننے کا نہیں بلکہ تعداد میں حکومت کا ساتھ دینے اور آئینی دفاتر کے علاوہ ضرورت پڑنے پر حکومت کو مشورہ دینے سے متعلق ہے۔‘

اینکر و تجزیہ کار رؤف کلاسرا سمجھتے ہیں کہ موجودہ معاشی صورت حال کو دیکھتے ہوئے پیپلز پارٹی کابینہ کا حصہ نہیں بنے گی۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’میرا نہیں خیال کہ اس مہنگائی کو دیکھتے ہوئے پیپلز پارٹی ابھی کابینہ کا حصہ بنے گی کیونکہ وہ عوامی غم و غصے کا رخ اپنی طرف نہیں کرنا چاہتے۔ ابھی بجٹ پر ساری تنقید مسلم لیگ ن پر ہے، پیپلز پارٹی کہیں بھی نظر نہیں آ رہی اور یہی معاملات اس وقت پارٹی کے اندر چل رہے ہیں۔‘

پارلیمانی امور کی کوریج کرنے والے صحافی خالد محمود بھی سمجھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی موجودہ صورت حال میں پیپلز پارٹی بجٹ کے حوالے سے عوامی ردعمل سے بچنا چاہتی ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’پیپلز پارٹی حکومت کی اتحادی جماعت ہے۔ صدر سے لے کر گورنر اور وزرا تک کی تقرری اتفاق رائے سے ہوئی ہے۔ پیپلز پارٹی صرف آئی ایم ایف کے بنائے ہوئے بجٹ سے دور رہنا چاہتی ہے تاکہ سارا  بوجھ مسلم لیگ ن پر آئے اور  عوامی ردعمل کا سامنا  بھی مسلم لیگ ن کرے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی چیئر پرسن روبینہ خالد کہہ چکی ہیں کہ کابینہ میں شمولیت اب صرف فرضی ہو گی۔ تمام معاملات طے ہیں  اور پیپلز پارٹی اہم وزارتیں دوبارہ لے گی۔‘

کیا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں کوئی ناراضگی چل رہی ہے؟ اس سوال کے جواب میں خالد محمود نے کہا کہ ’دونوں جماعتوں میں کوئی ناراضگی نہیں ہے، یہ سب بس عوام کو دکھانے کے لیے ہے۔ جیسے بجٹ والے دن صرف 10 منٹ کا احتجاج کیا گیا اور واپس ایوان میں آ گئے۔‘

سیاسی تجزیہ کار جاوید حسین بھی کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی عوامی ردعمل دیکھتے ہوئے فیصلہ کرے گی۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’پیپلز پارٹی کا ماننا ہے کہ اگر مطالبات پورے کیے گئے، جن میں سیلاب متاثرین کی بحالی، تین سو یونٹس بجلی فری، سارے صوبوں کو ترقیاتی منصوبوں کی یکساں تقسیم اور این ایف سی ایوارڈ میں کسی قسم کا ردبدول یا رکاوٹ برداشت نہ کیا جانا، تو پیپلز پارٹی بجٹ میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالے گی جبکہ مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی کے اس رویے کی وجہ بلاول بھٹو زرداری کا رویہ قرار دیتے ہوئے کہہ رہی ہے کہ یہ باپ بیٹے کے درمیان آپس کی تفریق ہے اور فیصلہ انہوں نے کرنا ہے کہ کیا کرنا ہے۔‘

بقول جاوید حسین: ’بجٹ اور حکومت کی معاشی پالیسیوں پر اب جو تنقید شروع ہوئی ہے تو پیپلز پارٹی اسی کا انتظار کر رہی تھی کہ بجٹ پر عوام کا کس قدر ردعمل آتا ہے۔ اب اس صورت حال اور وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت کے 100 دن کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے پیپلز پارٹی کسی فیصلے پر یقیناً پہنچ جائے گی۔‘

پارلیمانی امور کی کوریج کرنے والے صحافی آصف بشیر چوہدری کہتے ہیں کہ ’بجٹ اجلاس کے دوران پیپلز پارٹی کی ناراضگی سے فنانس بل کی منظوری میں تو کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی تاہم بجٹ اجلاس کے بعد پیپلز پارٹی کے ایک ٹکٹ میں دو مزے لینے کی پالیسی شاید برقرار نہ رہ سکے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’اس وقت پیپلز پارٹی پاکستان میں صدر مملکت، چیئرمین سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر سمیت گورنرز کے آئینی عہدوں پر براجمان بھی ہے اور پارلیمنٹ میں اپوزیشن کا کردار بھی ادا کرتی دکھائی دیتی ہے، جو ایک اتحادی کے طور پر باقی جماعتوں بالخصوص  مسلم لیگ ن کے لیے قابل قبول نہیں ہو گا۔

’دوسری جانب بلاول بھٹو زرداری حکومت میں شراکت کے مخالف تھے لیکن آصف علی زرداری صدر بننا چاہتے تھے جس کے لیے آئینی عہدوں تک محدود رہنے کا راستہ اپنایا گیا لیکن بجٹ اجلاس میں پیپلز پارٹی کے حالیہ کردار کے بعد مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی سے ازسرنو کابینہ میں شمولیت پر زور دے رہی ہے۔‘

بقول آصف بشیر چوہدری: ’سیاسی صورت حال کی نزاکتوں کو سامنے رکھیں تو پیپلز پارٹی کو بالآخر شراکتِ اقتدار کے فارمولے میں مکمل طور پر شریک ہونا ہوگا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست