کابینہ ملک کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کی مہارت رکھتی ہے: عطا تارڑ

وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ’مخصوص کام متعلقہ افراد کو دیے جائیں گے جو پچھلے کافی عرصہ سے مخصوص شعبوں میں کام کر رہے ہیں۔ ‘

وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت پیر کو  اسلام آباد میں وفاقی کابینہ کا پہلا اجلاس ہوا (وزیراعظم آفس)

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ملک کے 90 فیصد وسائل پر اشرافیہ کی اجارہ داری رہی ہے جو کسی قسم کی سبسڈی کے مستحق نہیں ہیں۔

بدھ کو وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’ملک کی ترقی کے پیش نظر زیادہ وسائل کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے ٹیکس چوری، بجلی و گیس کی چوری کے معاملے پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔‘

وزیراعظم نے اپنے خطاب میں اس امید کا اظہار کیا کہ تشکیل پانے والی کابینہ کے نئے ارکان چیلنجز کا مقابلہ کریں گے کیوں کہ یہ نوجوانی اور تجربے کا بہترین امتزاج ہیں جو قوم کو آگے لے جانے کے لیے کام کر سکتے ہیں۔

وزیراعظم کی اس بیان کے بعد یہ سوالات بھی کیے جا رہے ہیں کہ تشکیل پانے والی کابینہ ماضی کی کابینہ سے کتنی مختلف ہے اور اس کی ترجیحات کیا ہوں گی؟

کیا عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ مذاکرات کے بعد عوام کو کوئی ریلیف ملے گا یا ایک بار پھر مشکل فیصلوں کی صورت میں عوام پر مزید بوجھ پڑے گا؟

انڈپینڈنٹ اردو نے کابینہ کی تشکیل کے بعد کیے جانے والے ان سوالات سے متعلق وفاقی حکومت، سیاسی اور معاشی ماہرین کی رائے جاننے کی کوشش کی ہے۔

وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا اگرچہ اس کابینہ پر سیاسی قدآوروں کا غلبہ ہے تاہم اس میں ایسے ٹیکنو کریٹس بھی ہیں جو معاشی چیلنجز سے نمٹنے کی مہارت رکھتے ہیں۔

’ماضی کے مقابلہ میں یہ قدرے چھوٹی کابینہ ہے جو تجربہ اور نوجوانوں کا امتزاج ہے۔‘

وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ’مخصوص کام متعلقہ افراد کو دیے جائیں گے جو پچھلے کافی عرصہ سے مخصوص شعبوں میں کام کر رہے ہیں۔ ان میں پلاننگ سے منسلک احسن اقبال جبکہ بینکنگ سیکٹر سے وابستہ محمد اورنگزیب خان شامل ہیں۔‘

عطا تارڑ نے کہا وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اپنے شعبہ میں بڑا نام رکھتے ہیں۔ اس سے قبل وہ نجی بینک کے صدر بھی رہ چکے ہیں، فننانس کے شعبہ میں وسیع تجربہ ہونے کی وجہ سے وہ معیشت کو درپیش چیلنجز کا سامنا کر سکتے ہیں۔

وزیر خزانہ کی ڈچ شہریت سے متعلق عطا تارڑ نے کہا کہ وہ اس سے قبل ڈچ شہریت چھوڑ چکے ہیں جس کی رسمی کارروائیاں مکمل ہو چکی تھیں۔

’اورنگزیب خان ایک پرفیشنل انسان ہیں جو بیرون ملک مقیم نہیں تھے۔ ان کا پرائیویٹ سے پبلک سیکٹر آنا خوش آئند اقدام ہے۔‘

عطا تارڑ کے مطابق: ’ملک کو معاشی بحران سے نکالنا‘ کابینہ کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے، جس کے لیے وزیر اعظم نے کہا ہے کہ ٹیکس نیٹ کو بڑھانا ضروری ہے اور اس ضمن میں اشرافیہ پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

معاشی امور کے صحافی مہتاب حیدر نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ٹیم لیڈر وہی ہیں تاہم کابینہ میں چند بنیادی تبدیلیاں آئی ہیں۔

مہتاب حیدر کے مطابق کابینہ کو تین بڑے چیلنجز کا سامنا ہے جس میں پہلا آئی ایم ایف کا ریویو جو 14 مارچ کو شروع ہونا ہے۔

دوسرا تین سال پر محیط میڈیم ٹرم پروگرام ہے، اسے ایکسٹینڈڈ فنڈ فسیلٹی کہتے ہیں، جس پر سوچنے اور سمجھنے کے بعد دستخط کرنا ہوں گے۔ اور ان دونوں کی روشنی میں نئے مالیاتی سال کا بجٹ بنایا جانا ہے۔

مہتاب حیدر نے کہا موجودہ ٹیم خصوصی طور پر معاشی ٹیم کی پلیٹ فل ہے جو ہر وقت کام کریں گے تو ہی حالات بہتری کی جانب جا سکتے ہیں۔

دوسری جانب پاکستان کی سیاسی صورتحال پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار ضیغم خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا مسلم لیگ ن کے دور اقتدار کی کابینہ ہمیشہ توقعات کے مطابق ہوتی ہے۔ ’چوں کہ نواز شریف کے پیشے کے اوائل میں بنائے گئے دوست اب بھی اس کا حصہ ہیں جن کے نام کابینہ میں شامل ہوتے ہیں۔‘

ضیغم خان نے کہا جہاں کابینہ میں جام کمال اور اتحادی جماعتوں سے رہنما آئے ہیں وہیں مسلم لیگ ن سے منسلک چند پرانے چہرے اور پرانے خاندانوں کے لوگ شامل ہیں۔

جیسے خواجہ آصف ہیں تو ساتھ ہی شزا فاطمہ خواجہ بھی ہیں اور عطا تارڑ سابق صدر رفیق تارڑ کے پوتے ہیں۔ ’مسلم لیگ ن میں میرٹ پر پہلے خاندان آتا ہے، پھر کشمیری برادری، لاہور اور دیگر چیزیں شامل ہوتی ہیں۔‘

ضیغم نے کہا اس کابینہ کا سب سے اہم نقطہ پاور/طاقت کا سیاست دانوں کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ کی جانب پھسلنا ہے۔ ’اسٹیبلشمنٹ نے وزارت خزانہ کے لیے اپنا فرد بھیجا ہے جو قابل بھی ہے۔ اسی طرح وزارت داخلہ کے لیے بھی اسٹیبلشمنٹ نے اپنا ہی بندہ بھیجا ہے۔‘

ضیغم خان نے بتایا اسحاق ڈار نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں جو کام کیے ان کی کوئی قبولیت نہیں تھی۔ ’بطور وزیر خزانہ انہوں نے کوئی قابلیت نہیں دکھائی اس لیے انہیں تسلی کے انعام کے طور پر وزیر خارجہ تعینات کیا گیا ہے۔‘

ضیغم کے مطابق دوسری جانب کابینہ میں قابل افراد بھی شامل ہیں جن میں احسن اقبال، اعظم نذیر تارڑ، مصدق ملک اور رانا تنویر حسین شامل ہیں۔

مجموعی طور پر یہ کابینہ اتنی بری نہیں ہے تاہم یہ ماننا ہوگا کہ طاقت اس کے ہاتھ سے نکل رہی ہے۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست