وزیر اعظم شہباز شریف نے ہفتے کو نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں انسداد عسکریت پسندی کے لیے آپریشن ’عزم استحکام‘ کی منظوری دی ہے۔
وزیر اعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ ’آپریشن عزم استحکام کو شروع کرنے کی منظوری پاکستانیوں کے عسکریت پسندی کے خاتمے کے قومی عزم کی علامت ہے۔‘
بیان میں کہا گیا کہ ’آپریشن عزم استحکام ایک جامع اور فیصلہ کن انداز میں ملک میں انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے کوششوں کے متعدد خطوط کو مربوط اور ہم آہنگ کرے گا۔‘
بیان کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف نے آپریشن عزم استحکام کی منظوری چاروں صوبائی حکومتوں کے علاوہ گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی انتظامیہ اور تمام دوسرے سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشورے کے بعد دی۔
نیشنل ایکشن پلان (این اے پی) کی ایپکس کمیٹی نے ملک میں عسکریت پسندی کے خاتمے کے لیے مکمل قومی اتفاق رائے اور نظام کی وسیع ہم آہنگی پر قائم ہونے والی نئی، جامع اور جاندار حکمت عملی کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں وفاقی کابینہ کے اہم وزرا بشمول نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار، وزیر دفاع خواجہ محمد آصف، وزیر داخلہ محسن نقوی، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب، وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ اور وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے شرکت کی۔
تمام صوبوں اور گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ، سروسز چیفس، صوبوں کے چیف سیکرٹریز کے علاوہ دیگر سینیئر سویلین، فوجی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں بھی اجلاس میں موجود تھے۔
نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی نے آج انسداد عسکریت پسندی کی جاری مہم کے علاوہ داخلی سلامتی کی صورت حال کا جائزہ لیا۔
اجلاس میں نیشنل ایکشن پلان کے ملٹی ڈومین اصولوں پر ہونے والی پیش رفت کا بھی جائزہ لیا گیا، خصوصاً اس پر عمل درآمد میں خامیوں کی نشاندہی کرنے پر زور دیا گیا تاکہ ان کو اولین ترجیح میں دور کیا جا سکے۔
اجلاس میں مکمل قومی اتفاق رائے اور نظام کے وسیع ہم آہنگی پر قائم ہونے والی انسداد عسکریت پسندی کی ایک جامع اور نئی جاندار حکمت عملی کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔
ایوان وزیر اعظم سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق اجلاس نے سیاسی سفارتی دائرہ کار میں علاقائی تعاون کے ذریعے عسکریت پسندوں کے لیے آپریشنل جگہ کو کم کرنے کی کوششیں تیز کرنے کا فیصلہ کیا، جب کہ مسلح افواج کی تجدید اور بھرپور متحرک کوششوں کو تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مکمل حمایت سے بڑھایا جائے گا، جو عسکریت پسندی سے متعلق مقدمات کی مؤثر کارروائی میں رکاوٹ بننے والے قانونی خلا کو دور کرنے کے لیے مؤثر قانون سازی کے ذریعے بااختیار ہوں گے اور انہیں مثالی سزائیں دی جائیں گی۔
بیان کے مطابق: ’اس مہم کو سماجی و اقتصادی اقدامات کے ذریعے مکمل کیا جائے گا، جس کا مقصد لوگوں کے حقیقی خدشات کو دور کرنا اور انتہا پسندانہ رجحانات کی حوصلہ شکنی کرنے والا ماحول بنانا ہے۔
’مہم کی حمایت میں ایک متحد قومی بیانیہ کو فروغ دینے کے لیے معلومات کی جگہ کا فائدہ اٹھایا جائے گا۔‘
بیان کے مطابق فورم نے اس بات کا اعادہ کیا کہ انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کے خلاف جنگ پاکستان کی جنگ ہے اور یہ قوم کی بقا اور بہبود کے لیے بالکل ضروری ہے۔
’فورم نے مزید فیصلہ کیا کہ کسی کو بغیر کسی رعایت کے ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
’اجلاس نے پاکستان میں چینی شہریوں کے لیے فول پروف سکیورٹی کو یقینی بنانے کے اقدامات کا بھی جائزہ لیا۔‘
وزیر اعظم کی منظوری کے بعد متعلقہ محکموں کو نئے سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز (ایس او پیز) جاری کیے گئے، جن سے پاکستان میں چینی شہریوں کو جامع سکیورٹی فراہم کرنے کے طریقہ کار میں اضافہ ہو گا۔
’عسکریت پسندی سے نمٹنا صرف ایک حکومتی ادارے کا کام نہیں‘
اس سے قبل وزیر اعظم شہباز شریف نے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ پاکستان میں عسکریت پسندی سے نمٹنا صرف ایک حکومتی ادارے کا کام نہیں بلکہ پوری حکومتی مشینری، خصوصاً تمام صوبوں کو اکٹھے کام کرنا ہو گا۔
این اے پی کی ایپکس کمیٹی کے اجلاس سے خطاب میں ان کا کہنا تھا: ’عسکریت پسندی کے خلاف جنگ کی ذمہ داری تمام ریاستی اداروں کی اجتماعی اور بنیادی ذمہ داری ہے۔ یہ آپ کے اور میرے بارے میں نہیں، یہ ہمارے بارے میں ہے، ہمیں اسے مل کر کچلنا ہو گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ کچھ صوبوں نے (عسکریت پسندی کے) اس معاملے میں بڑی پیش رفت کی ہے۔ ’لیکن یہ میرا یقین ہے کہ ہم سب نے یہ معاملہ بہت آسانی سے اپنی مسلح افواج پر چھوڑ دیا ہے … اور صوبے اور حکومتیں اس (ذمہ داری) سے مکمل طور پر بری الذمہ ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’بلاشبہ مختلف صوبائی پولیس فورسز، شہریوں اور سیاست دانوں نے اس جنگ میں قربانیاں دی ہیں، لیکن مجموعی طور پر ہمارے ایکشن کا جو مروجہ مظاہرہ سامنے آیا وہ یہ ہے کہ فوج کو یہ کام کرنا ہے اور یہ ان کا معاملہ ہے۔‘
وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والے اجلاس سے خطاب میں شہباز شریف نے مزید کہا کہ عسکریت پسندی کے مسئلے نے پاکستان کو گذشتہ ڈھائی دہائیوں سے گھیر رکھا ہے اور یہ ایک انتہائی پیچیدہ معاملہ ہے، جس میں جرائم، منشیات، سمگلنگ، انتہا پسندی اور مذہبی عسکریت پسندی شامل ہیں۔
’قانون کی حکمرانی اور استحکام ملک کی ترقی کے لیے اہم ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ عسکریت پسندی کی لپیٹ میں آنے والی غیر مستحکم ریاست میں مضبوط اور صحت مند معیشت کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ ’یہ وہ خطرناک عمل ہے جو گذشتہ برسوں میں ایک رواج بن گیا ہے کہ یہ صرف فوج کا کام ہے۔‘
وزیر اعظم شہباز شریف کے خیال میں یہ طریقہ نہیں اور اس سے ملک سے عسکریت پسندی ختم نہیں ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ انسداد دہشت گردی کے محکموں کی ذمہ داری صوبوں کی ہے۔
’ہم ایک مکمل نظام یا مکمل حکومتی نقطہ نظر کے بغیر مضبوط استحکام کی امید بھی نہیں کر سکتے۔ اس کا حوالہ نہ صرف تمام ایجنسیوں اور وزارتوں بلکہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور تمام اداروں سے ہے۔‘
وزیراعظم نے امید ظاہر کی کہ صوبے دہشت گردی سے نمٹنے میں اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ عسکریت پسندی کے خلاف جنگ میں سیاسی اور مذہبی قیادت کو ذہنی طور پر واضح ہونے کی ضرورت ہے کہ یہ جنگ ہماری اپنی بقا کی جنگ ہے اور ہم کسی اور کی جنگ نہیں لڑ رہے ہیں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ اس مسئلے کو کسی بھی سیاسی تنازعات سے بالاتر ہو کر تسلیم کرنے کی ضرورت ہے اور اس پر اتفاق رائے اور باہمی مشاورت سے عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
’ہمیں اس کی ذمہ داری قبول کرنا ہو گی۔ اسے صرف ایک ریاستی ادارے پر چھوڑ دینا بہت بڑی غلطی ہو گی۔‘
وزیر اعظم نے کہا کہ لڑائی کے لیے حرکیات سے ہٹ کر دیگر اقدامات کی بھی ضرورت ہو گی۔ جیسا کہ عوامی آگاہی، مکالمہ، بیانیہ کا مقابلہ کرنا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مضبوط کرنا۔
1 |
دہشت گردی کے مقدمات میں سزائے موت پانے والوں کی سزا پر عمل درآمد۔ |
2 |
فوج کی نگرانی میں خصوصی ٹرائل عدالتوں کا قیام، جن کی مدت دو سال ہو گی۔ |
3 |
ملک میں عسکریت پسند تنظیموں اور مسلح گروہوں کو کام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ |
4 |
انسداد عسکریت پسندی کے ادارے نیکٹا کو مضبوط کیا جائے گا۔ |
5 |
نفرت، انتہا پسندی، فرقہ واریت اور عدم برداشت کو فروغ دینے والے لٹریچر، اخبارات اور رسائل کے خلاف سخت کارروائی۔ |
6 |
عسکریت پسند اور عسکریت پسند تنظیموں کی مالی امداد کی راہیں محدود کی جائیں گی۔ |
7 |
دوبارہ ابھرتی کالعدم تنظیموں کو روکنا۔ |
8 |
انسداد عسکریت پسندی کے لیے وقف فورس کا قیام اور تعیناتی۔ |
9 |
مذہبی ظلم و ستم کے خلاف مؤثر اقدامات کرنا۔ |
10 |
دینی مدارس کی رجسٹریشن اور ریگولیشن۔ |
11 |
پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے عسکریت پسندی اور عسکریت پسند تنظیموں کی تعریفوں پر پابندی۔ |
12 |
آئی ڈی پیز کی واپسی پر فوری توجہ کے ساتھ فاٹا میں انتظامی اور ترقیاتی اصلاحات۔ |
13 |
عسکریت پسندوں کے مواصلاتی نیٹ ورک کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا۔ |
14 |
عسکریت پسندی کے لیے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے غلط استعمال کے خلاف اقدامات۔ |
15 |
پنجاب میں عسکریت پسندی کے لیے زیرو ٹالرنس۔ |
16 |
کراچی میں جاری آپریشن کو اس کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ |
17 |
بلوچستان حکومت کو تمام اسٹیک ہولڈرز کی مکمل ملکیت کے ساتھ سیاسی مفاہمت کے لیے مکمل طور پر بااختیار بنایا جائے۔ |
18 |
فرقہ وارانہ عسکریت پسندی سے مضبوطی سے نمٹنا جائے گا۔ |
19 |
افغان پناہ گزینوں کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک جامع پالیسی کی تشکیل، جس کا آغاز تمام پناہ گزینوں کی رجسٹریشن سے ہو۔ |
20 |
فوجداری نظام انصاف میں اصلاحات۔ |
نیشنل ایکشن پلان 2014 کے 20 ایجنڈا آئٹمز (نیکٹا) |
پشاور میں آرمی پبلک سکول پر مہلک دہشت گرد حملے کے بعد نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی نے سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے انسداد دہشت گردی اور انتہاپسندی کے لیے 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان تیار کیا تھا، جس کی بعد ازاں پارلیمنٹ نے 24 دسمبر، 2014 کو اس کی منظوری دی تھی۔