اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شدت پسند کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) افغانستان میں ’سب سے بڑا دہشت گرد گروپ‘ بن گیا ہے، جسے پاکستان میں سرحد پار سے حملے کرنے کے لیے طالبان حکمرانوں کی حمایت حاصل ہے۔
اقوام متحدہ کی پابندیوں کی نگرانی کرنے والی ٹیم نے بدھ کو یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں جاری کیا، جب ٹی ٹی پی کے پاکستانی سکیورٹی فورسز پر حملوں میں ڈرامائی اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ’ٹی ٹی پی افغانستان میں بڑے پیمانے پر کام کر رہی ہے اور وہاں سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتی ہے، جس کے لیے وہ اکثر افغانوں کو استعمال کرتی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رپورٹ کے مطابق ایک اندازے کے مطابق عالمی سطح پر نامزد اس شدت پسند گروپ، جسے پاکستانی طالبان بھی کہا جاتا ہے، کے افغانستان میں چھ سے ساڑھے چھ ہزار جنگجو موجود ہیں۔
اقوام متحدہ کی دستاویز میں کہا گیا کہ افغان طالبان کی ٹی ٹی پی کی حمایت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
ٹی ٹی پی کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں نے اسلام آباد اور کابل کے تعلقات کو کشیدہ کر دیا ہے۔ افغانستان کے حکمران کسی دہشت گرد گروہ کی موجودگی کے الزامات کو مسترد کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ افغان سرزمین پڑوسی ممالک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ ’طالبان ٹی ٹی پی کو ایک دہشت گرد گروپ تصور نہیں کرتے ہیں۔‘
ٹی ٹی پی 2007 میں پاکستان کے سرحدی قبائلی علاقوں میں بیت اللہ محسود کی سربراہی میں ابھری تھی، جس نے افغان طالبان کو امریکہ کے خلاف پناہ فراہم کی تھی۔
القاعدہ سے روابط
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ افغانستان میں القاعدہ کے علاقائی جنگجو پاکستان کے اندر ہائی پروفائل دہشت گردانہ کارروائیوں میں ٹی ٹی پی کی مدد کر رہے ہیں۔
طالبان نے اقوام متحدہ کے تازہ ترین نتائج پر فوری طور پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے، لیکن وہ اس سے قبل ایسی رپورٹوں کو مسترد کر چکے ہیں، جن کا مقصد بقول ان کے حکومت کو بدنام کرنا ہے۔
اقوام متحدہ کے جائزے میں رکن ممالک کے حوالے سے بتایا گیا کہ ٹی ٹی پی کو مقامی جنگجوؤں کے ساتھ مل کر القاعدہ کے کیمپوں میں تربیت دی جا رہی ہے، جس نے ننگرہار، قندھار، کنڑ اور نورستان میں کیمپ قائم کیے ہیں۔
امریکی ہتھیار اور ٹی ٹی پی
اقوام متحدہ کے رکن ممالک نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ’نیٹو کیلیبر ہتھیار، خاص طور پر رات کو دیکھنے کی صلاحیت رکھنے والے ہتھیار، جو افغان طالبان کی جانب سے ٹی ٹی پی کو فراہم کیے گئے ہیں، پاکستانی فوجی سرحدی چوکیوں پر ٹی ٹی پی کے دہشت گرد حملوں میں مہلک اضافہ کرتے ہیں۔‘
اسلام آباد میں حکام عسکریت پسندوں کے حملوں میں سکیورٹی فورسز کی بڑھتی ہوئی اموات کی وجہ جدید امریکی ہتھیاروں کو قرار دیتے ہیں، جو بین الاقوامی افواج افغانستان سے انخلا کے وقت پیچھے چھوڑ گئی تھیں، جو اب ٹی ٹی پی کے ہاتھ لگ گئے ہیں۔
اسلام آباد نے کئی بار کابل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کی زیر قیادت سرحد پار دہشت گردی پر لگام ڈالے اور بیت اللہ محسود سمیت ٹی ٹی پی کے رہنماؤں کو پکڑ کر پاکستان کے حوالے کرے۔ طالبان کا ردعمل رہا ہے کہ یہ ’پاکستان کا اندرونی سلامتی کا مسئلہ‘ ہے۔