متعدد عینی شاہدین کے مطابق میانمار سے فرار ہونے والے روہنگیا مسلمانوں پر ڈرون حملے میں درجنوں افراد جان سے گئے، جن میں ایسے خاندان بھی شامل ہیں جن کے ساتھ بچے تھے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے چار عینی شاہدین، سماجی کارکنوں اور ایک سفارت کار کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ پیر کو کیے گئے ڈرون حملے میں سرحد پار کر کے ہمسایہ ملک بنگلہ دیش میں داخل ہونے کے منتظر خاندانوں کو نشانہ بنایا گیا۔
حملے میں بچ جانے والے لاشوں کے ڈھیر میں رشتہ داروں اور زخمیوں کو تلاش کرتے دکھائی دیے۔ حملے میں جان گنوانے والوں میں حاملہ خاتون اور ان کی دو سالہ بیٹی بھی شامل ہیں۔
تازہ حملہ حالیہ ہفتوں میں ریاست رخائن میں میانمار کے فوجیوں اور باغیوں کے درمیان لڑائی کے دوران عام شہریوں پر ہونے والا سب سے زیادہ خونریز تھا۔
تین عینی شاہدین نے جمعے کو روئٹرز کو بتایا کہ حملے کی ذمہ دار اراکان آرمی ہے۔ تاہم ریاست اراکان کی آزادی کے لیے مسلح جدوجہد میں مصروف مسلح جتھے نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
اراکان ملیشیا اور میانمار کی فوج نے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرایا۔ روئٹرز اس بات کی تصدیق نہیں کر سکا کہ اس حملے میں کتنے افراد جان سے گئے اور نہ ہی آزادانہ طور پر حملے کے ذمہ داروں کا تعین کیا جا سکا ہے۔
سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کیچڑ سے بھرے میدان میں لاشوں کے ڈھیر لگے ہوئے۔ سوٹ کیس اور بیک پیکس ان کے ارد گرد بکھرے ہوئے ہیں۔
زندہ بچ جانے والے تین لوگوں نے بتایا کہ حملے میں 200 سے زیادہ لوگوں کی موت ہوئی جبکہ ایک عینی شاہد نے بتایا کہ انہوں نے کم از کم 70 لاشیں دیکھیں۔
روئٹرز نے تصدیق کی ہے کہ یہ ویڈیوز میانمار کے ساحلی شہر موںگداؤ کے باہر بنائی گئیں۔ روئٹرز اس بات کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کر سکا کہ یہ ویڈیوز کس تاریخ کو بنائی گئیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
35 سالہ عینی شاہد محمد الیاس نے بنگلہ دیش میں پناہ گزینوں کے کیمپ میں بتایا کہ حملے میں ان کی حاملہ بیوی اور دو سال کی بیٹی زخمی ہو گئی تھیں جن کی بعد میں موت واقع ہو گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ ساحل سمندر پر بیوی اور بیٹی کے ساتھ کھڑے تھے جب ڈرون نے لوگوں پر حملہ کر دیا۔
ایک اور عینی شاہد 28 سالہ شمس الدین کا کہنا تھا کہ وہ اپنی بیوی اور نوزائیدہ بیٹے کے ساتھ زندہ بچ گئے۔
انہوں نے بنگلہ دیش کے پناہ گزین کیمپ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ حملے کے بعد بہت سے لوگ مردہ پڑے تھے اور کچھ لوگ زخموں کی وجہ سے چیخ رہے تھے۔
خطے میں جاری لڑائی
میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر طویل عرصے سے مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔ ان میں سے سات لاکھ 30 ہزار سے زیادہ لوگ 2017 میں فوج کی قیادت میں کریک ڈاؤن کے بعد ملک سے فرار ہو گئے تھے۔
اقوام متحدہ کے مطابق یہ کریک ڈاؤن قتل عام کے ارادے سے کیا گیا تھا۔ میانمار 2021 میں فوج کے جمہوری طور پر منتخب حکومت سے اقتدار حاصل کرنے کے بعد سے بدامنی کا شکار ہے اور بڑے پیمانے پر احتجاج وسیع پیمانے پر مسلح جدوجہد شروع ہو چکی ہے۔
روہنگیا مسلمان کئی ہفتوں سے رخائن کی ریاست چھوڑ رہے ہیں کیونکہ اراکان آرمی نے، جو لڑنے والے بہت سے مسلح گروپوں میں سے ایک ہے، شمال میں زبردست کامیابی حاصل کی ہے جہاں مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی رہتی ہے۔