اب بالی وڈ میں کوئی ’سٹار‘ نہیں آئے گا؟

شاہ رخ خان کی موجودگی میں کئی نام ابھرے لیکن سٹار کی حیثیت سے کوسوں دور رہے۔

شاہ رخ خان سات جولائی، 2016 کو ممبئی میں عید کے موقعے پر اپنے مداحوں کو ہاتھ ہلا کر جواب دے رہے ہیں (اے ایف پی)

شاہ رخ خان کی فلمیں جیسی بھی ہوں انٹرویوز میں وہ کبھی کبھار بڑے کام کی بات کر جاتا ہے۔

ایک جگہ پوچھا گیا کہ ’آپ کو ڈر نہیں لگتا آپ کی جگہ کوئی اور سٹار آ جائے گا اور جو آپ کی حیثیت ہے وہ کھو بیٹھیں گے۔‘

انہوں نے چہرے پر ڈمپل والی مسکان سجائے جواب دیا، ’نہیں، کیوں کہ میں جانتا ہوں میں آخری سٹار ہوں، اب سٹارز کا دور ختم ہو گیا۔‘

بالی وڈ فلم انڈسٹری کی تاریخ میں ’سٹار پاور‘ کسی انجن کی طرح کام کرتی ہے۔

کہانی جیسی بھی ہو، گردن ہلاتے آنکھیں مٹکاتے گیت گانے والے راجیش کھنہ سے شریر و شوخ شاہ رخ تک یہ سٹارز ہی تھے جو تماشائیوں کی بوگیاں کھینچتے سینیما گھروں میں لوگوں کا ہجوم اکٹھا کرتے رہے۔

پروڈیوسر فلم اس لیے بناتا ہے کہ ٹکٹ بکے، ٹکٹ اس لیے بکتے آئے کہ ان میں سٹارز تھے۔

آپ نے کبھی نہیں سنا ہو گا کہ دلیپ کمار، راج کپور یا دیو آنند کی فلم ریلیز ہو رہی ہے اور سینیما کے باہر لوگ بستر لگا رہے ہیں۔

کھڑکی توڑ رش پڑتا تھا لیکن شائقین کی ہیرو سے دیوانہ وار محبت یا وارفتگی کا آغاز راجیش کھنہ سے ہوا۔ اس سے پہلے کہ آپ ’مغل اعظم‘ کی مثال دیں میں خود اس کی بات کر لیتا ہوں۔

’مغل اعظم‘ شاید وہ پہلی فلم تھی جس کے ٹکٹ خریدنے کے لیے سینیما گھروں کے باہر لمبی قطاریں لگیں، لوگ بستر سمیٹ آئے اور راتیں قطاروں میں گزاریں، گھر والے تین چار دن تک صبح سے شام کھانا ڈھوتے رہے۔

لیکن یہ دیوانگی کسی خاص سٹار کے لیے نہ تھی۔ لوگ دلیپ کمار یا مدھوبالا کے لیے پاگل نہیں ہو رہے تھے۔

یقین کیجیے مرکزی کردار دیگر اداکاروں نے بھی نبھائے ہوتے تو لوگ اسی طرح لڑ جھگڑ کر ٹکٹ لیتے۔ کے آصف نے پیکج ہی ایسا شاندار تیار کیا تھا۔

دلیپ صاحب، راج کپور اور دیو آنند پلک جھپکتے میں نہیں بنے، آپ ان کی کسی ایک فلم کے بارے یہ نہیں کہہ سکتے کہ ’آن‘ یا ’برسات‘ یا ’بازی‘ سے یہ راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔

جیسے آپ راجیش کھنہ کی ’ارادھنا‘ کے بارے میں کہتے ہیں۔  بالی وڈ سٹارز اپنی دلکشی، سکرین پر موجودگی اور ناظرین کے ساتھ تعلق قائم کرنے کی جادوئی صلاحیت کے لیے مشہور ہوتے ہیں اور انڈین ثقافت میں آئیکون یا ٹرینڈ سیٹر سمجھے جاتے ہیں۔

ان کے لیے اداکاری ایک اضافی خوبی ہے، امیتابھ بچن جیسا عمدہ اداکارہ بھی سٹار ہو سکتا ہے اور سلمان خان جیسا ناایکٹر بھی۔

سٹار پاور سے بڑھ کر ایک چیز ہے اور وہ ہے سپر سٹار ہونا۔ کیا یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک نئے ستارے کی روشنی ایسی تند و تیز ہو کہ راج کپور، شمی کپور اور دلیپ کمار جیسے چراغ بجھ کر رہ جائیں۔

راجیش کھنہ نے یہی کیا اور تین برس تک فلم انڈسری پر ایسا راج کیا کہ پہلے یا بعد میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ سپر سٹار کا جنم تھا۔

اگر آپ نے راجیش کھنہ کی فلمیں دیکھ رکھی ہیں تو مجھ سے اتفاق کریں گے کہ ان کی کہانیاں ایک دم بکواس ہوا کرتی تھیں، آنند، امر پریم اور آویشکار کے علاوہ سب مغلوبہ ٹائپ فارمولا کہانیاں۔

لیکن عوام پاگل ہوئی پڑی تھی۔ کس کے لیے؟ راجیش کھنہ کے لیے۔

1970 سے 1973 تک لگاتار 15 فلمیں سپر ہٹ۔ بالی وڈ کے پہلے سپر سٹار کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ یہ تاریخ بعد کا کوئی ہیرو نہ دہرا سکا۔

’زنجیر‘ سے اینگری ینگ مین امیتابھ بچن نے فرنٹ سیٹ پکڑی، یہ دوسرے سٹار کا جنم تھا۔

70 اور 80 کی دہائی میں کہانی کی اہمیت کم اور اینگری ینگ مین کی موجودگی زیادہ معنی رکھتی تھی۔

لوگ سینیما گھروں کا رخ اس لیے کرتے تھے کیونکہ سکرین پر امیتابھ بچن کا نام ہوتا تھا۔

یہی وہ وقت تھا جب کہانی کی گہرائی اور پیچیدگی کی بجائے سٹار کی شخصیت اور اس کا کرشماتی ہالہ زیادہ اہم ہو گیا۔

90 کی دہائی میں شاہ رخ، سلمان، اور عامر کا دور شروع ہوا۔ ہر خان کی ایک الگ پہچان تھی: شاہ رخ کی رومانوی فلمیں، سلمان کی ایکشن فلمیں، اور عامر کی ورسٹائل کرداروں کو نبھانے اور دانش ور بننے کی چرچا نے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔

بالی وڈ میں خانوں کی انٹری کا فوری ردعمل عوام کا وی سی آر کو چھوڑ کر سینیما گھروں کا رخ کرنا تھا۔

تب سینیما کلچر کے مستقبل پر سوال اٹھائے جا رہے تھے کہ لوگ وی سی آر پر گھروں میں بیٹھ کر آرام سے فلم دیکھیں گے سینیما کا ٹکٹ کون خریدے گا۔

اس مثلث نے ثابت کیا کہ یہ باتیں محض باتیں تھیں۔ نئی نسل نئے چہروں میں اپنے خوابوں کے نقش تلاش کر رہی تھی۔

لوگ ریوڑوں کی طرح سینیما گھروں میں آنے اور ریوڑیوں کی طرح ٹکٹ خریدنے لگے۔

اب فلم کے موضوعات بھی تبدیل ہو رہے تھے۔ 90 کی دہائی کا ہیرو اینگری ینگ مین کی سماجی زبان کی بجائے اپنی نفسیاتی الجھنوں اور محبت سے جڑے انفرادی تجربات کی بات کر رہا تھا۔

رواں صدی کی پہلی اور دوسری دہائی میں بھی خان چھائے رہے۔ سٹارڈم کی دوڑ میں شاہ رخ آج سلمان اور عامر سے کہیں آگے کھڑے ہیں۔

ان کی موجودگی میں کئی نام ابھرے لیکن سٹار کی حیثیت سے کوسوں دور رہے، اجے، اکشے، ہریتک روشن وغیرہ۔ بعد کی نسل میں رنبیر کپور اور رنویر سنگھ جیسے کئی ’مسٹر ہینڈسم۔‘

سٹار کے امکانات محدود ہونے کی دو بڑی وجوہات ہیں: مڈل آف دی روڈ سینیما کی بڑھتی ہوئی قبولیت اور نئی نسل کی بدلتی نفسیات۔

70 کی دہائی میں متوازن اور کمرشل سینیما میں بہت فاصلہ تھا۔ بلکہ یہ ایک دوسرے کی ضد تھے۔ آہستہ آہستہ کمرشل سینیما متوازی سینیما کو کھا گیا۔

متوازی سینیما والوں کو گالی دی جاتی کہ چار پیسے آ گئے تو کمرشل فلمیں بنانے لگے۔ 90 کی دہائی سے پہلے پرانا والا متوازی سینیما کنارے لگ چکا تھا۔

’بینڈت کوئن‘ (1994) اور ’ستیہ‘ (1999) ایک تازہ لہر تھی جس نے مختلف موضوعات اور تیکنیکی طور پر ایسی عمدہ فلموں کی روایت ڈالی جن کی سٹار کاسٹ بڑے نام نہ تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس نے وشال بھردواج کا حوصلہ بڑھایا، راجو، شیکھر کپور، انوراگ کشیپ جیسے منفرد فلم ساز کامیاب لیکن مختلف فلمیں پیش کرتے رہے۔

ان فلموں نے ایسے اداکاروں کو ابھرنے کا موقع فراہم کیا جن کی مین سٹریم انڈسٹری میں جگہ نہ تھی۔

اب نواز الدین صدیقی، سنجے مشرا، ترپاٹھی اور کھرانہ کی فلمیں اپنی الگ آڈینس رکھتی ہیں۔ سٹار پاور کے بغیر ان کی فلمیں منفرد بھی ہیں اور کامیاب بھی۔

سینیما کے ساتھ ساتھ ایسے فلم سازوں کو او ٹی ٹی پلیٹ فارمز کا آپشن بھی ملا۔ فلم سینیما میں نہیں چلتی تو نہ چلے، رائٹس بیچ کر پیسے پورے کر لو۔

او ٹی ٹی آئی پلیٹ فارمز نے لوگوں کو روایتی سینیما سے ہٹ کر مختلف اور منفرد کہانیاں دیکھنے کا موقع فراہم کیا۔ یہاں کئی ایسی فلمیں بڑی کامیابی سمیٹ رہی ہیں جو شاید سینیما میں لگتیں تو پٹ جاتیں۔

امتیاز علی نے ’امر سنگھ چمکیلا‘ سینیما میں چلانے کا رسک نہیں لیا کہ بائیو پک آج کل زیادہ چلتی نہیں۔

آن لائن پلیٹ فارمز نے فلموں کی کامیابی کا پیمانہ بدل دیا، جہاں اب یہ نہیں دیکھا جاتا کہ فلم میں کون ہے بلکہ یہ کہ فلم کہتی کیا ہے۔

’سیکرڈ گیمز‘ اور ’مرزا پور‘ جیسی ویب سیریز کی مقبولیت دیکھ لیجیے۔ سٹار پاور کے خاتمے کی ایک وجہ شائقین کا ایکسپوزر ہے۔

مستقبل نئی نسل کا ہے۔ وہ دنیا بھر کی الا بلا دیکھ رہے ہیں۔ نئی زبانیں اور ثقافتیں جاننے لگے ہیں۔ ان کے لیے روایتی فلموں کے پلاٹس اور مسالہ کہانیاں بالکل متاثر کن نہیں۔

ممکن ہے آپ کہیں پھر شاہ رخ کی ’پٹھان‘ اور ’جوان‘ کیسے ریکارڈ ساز ہوئیں؟

پہلی بات یہ کہ شاہ رخ سٹار ہے، لوگ اس کی وجہ سے سینیما آتے ہیں۔ دوسری بات کہ یہ ہم جیسے پرانے شائقین ہیں جو کچھ عرصے بعد مر مرا جائیں گے۔ نیا سٹار کہاں سے آئے گا؟

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فلم