ایس سی او کا اجلاس، پاکستان کی مودی کو دعوت

پاکستان اور انڈیا شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ہیں اور اس تنظیم کا سربراہی اجلاس 15 اور 16 اکتوبر کو اسلام آباد میں ہونا ہے۔

چار جولائی 2024 کو قازقستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے سربراہان کی کونسل کے اجلاس کے بعد بنائی گئی تصویر (ایس سی او ویب سائٹ)

پاکستان نے انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی کو اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس میں شرکت کی دعوت بھیجی ہے لیکن تاحال نئی دہلی کے طرف سے اس پر باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا۔

جنوبی ایشیا کے دونوں پڑوسی ممالک - پاکستان اور انڈیا - شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ہیں اور تنظیم کا سربراہی اجلاس 15 اور 16 اکتوبر کو اسلام آباد میں ہونا ہے۔

پاکستان کی وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے جمعرات کو ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں کہا تھا کہ تنظیم کے تمام رکن ممالک کے سربراہان مملکت بشمول انڈیا کے وزیراعظم کو سربراہی اجلاس میں دعوت نامے بھجھوا دیے گئے ہیں۔

’ان (ممالک سے) کیا جواب آیا ہے، اس وقت ہم یہ بتانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔‘

جنوبی ایشیا کی دو جوہری طاقتیں پاکستان اور بھارت خطے میں کشمیر کے مسئلے پر آمنے سامنے رہی ہیں، جس پر دونوں ملک ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔

اگست 2019 میں بھارت نے اپنے زیر انتظام کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کرتے ہوئے وہاں سخت پابندیاں نافذ کر دی تھیں۔

پاکستان نے انڈیا کے اس یک طرفہ اقدام کے بعد اسلام آباد نے نئی دہلی سے سفارتی تعلقات کو کم سطح پر لاتے ہوئے دو طرفہ تجارت کو معطل کر دیا تھا۔

پاکستان کی طرف سے یہ کہا جاتا رہا کہ کہ تعلقات کو بحال کرنے کے لیے انڈیا کو پہلے کشمیر میں اپنے فیصلے واپس لینا پڑیں گے۔

دوسری جانب بلوچستان میں حالیہ سکیورٹی واقعات پر پاکستانی وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ بلوچستان واقعہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کو خراب کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔

وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے جمعے کو سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ  بلوچستان واقعہ کوئی عام واقعہ نہیں تھا اور ’یہ صرف ایک باڈی (تنظیم) نے نہیں کیا بلکہ ایک دو دہشت گرد تنظیموں نے مل کر کیا ہے۔‘

’اکتوبر میں ہم (شنگھائی تعاون تنظیم) کی میزبانی کر رہے ہیں اور بہت سارے لوگوں کو اس کی تکلیف ہے کہ نہ ہو اور یہ اس کے خلاف بھی ایک سازش ہے۔‘

بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار اور قائداعظم یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ڈاکٹر ظفر جسپال نے ایس سی او اجلاس کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ دعوت ایک علاقائی فورم میں شرکت کے لیے ہے اس لیے اس سے یہ توقع کرنا کہ ’دونوں ملکوں کے تعلقات سے متعلق برف پگلے گی، درست نہیں ہو گا۔‘

انہوں نے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم یوریشیا خطے کی سب سے بڑی تنظیم ہے اور خطے میں انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں بھی اس کا کردار کلیدی ہے۔

’میرے خیال میں انڈین وزیراعظم شاید خود تو اسلام آباد نہیں آئیں گے البتہ وہ اپنے کسی نمائندےکو یہاں بھیج سکتے ہیں۔
 
’ویسے بھی یہ دعوت دوطرفہ نوعیت کی نہیں ہے۔‘ 

ڈاکٹر ظفر جسپال کے مطابق ایس سی او کا سربراہی اجلاس پہلی مرتبہ پاکستان میں ہو رہا ہے ’اس لیے اسلام آباد کے لیے تو اس کی بہت اہمیت ہے۔‘ 
 
شنگھائی تعاون تنظیم کیا ہے؟

شنگھائی تعاون تنظیم کی بنیاد 2001 میں چین اور روس نے رکھی تھی جس کے اراکین میں اب قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ازبکستان، پاکستان، انڈیا اور ایران بھی شامل ہیں۔

کیونکہ آبادی کے لحاظ سے دو بڑے ممالک انڈیا اور چین اس تنظیم کی رکن ہیں اس لیے یہ تنظیم دنیا کی کل آبادی کے 40 فیصد کا ایک فورم ہے۔

پاکستان 2005 سے 2017 تک اس تنظیم کا آبزرور رکن رہا اور پھر جولائی 2017 اسے باضابطہ طور پر ایس سی او میں شامل کیا گیا۔
 
انڈین حکومت یا میڈیا  پر اب اس پر کیا کہا جا رہا ہے؟

انڈین میڈیا کے مطابق نئی دہلی کی طرف سے تاحال پاکستان کی طرف سے بھیجے گئے باضابہ دعوت نامے پر کوئی بیان نہیں دیا گیا۔ گذشتہ سال جب انڈیا نے شنگھائی تعاون تنظیم کی میزبانی کی تھی تو پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے ویڈیو لنک کے ذریعے اس میں شرکت کی تھی۔

اس سے قبل یہ قیاس آرائیاں عروج پر تھیں کہ بھارت نے ایس سی او اجلاس میں شرکت کی دعوت مسترد کر دی ہے  اس بارے میں انڈین ایکسریس نے وزارت خارجہ کے ایک بیان کے حوالے سے کہا ہے کہ ’ہم نے دیکھا ہے کہ کئی آؤٹ لیٹس (ادارے) خبریں چلا رہے ہیں کہ وزیراعظم (مودی) پاکستان میں ایس سی او کے اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے۔۔۔ اس معاملے پر انڈین کی وزارت خارجہ نے کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے اور اس سلسلے میں (ہم) قیاس آرائی پر مبنی خبروں سے گریز کرنے کی درخواست کریں گے۔‘

تجزیہ کار قمر چیمہ کہتے ہیں کہ پاکستان انڈیا سے تعلقات میں بہتری کا خواہاں ہے اور ان کے بقول اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انڈین وزیراعظم پاکستان آتے ہیں ’مودی کے لیے ایک اچھا موقع ہے دونوں ملکوں کے تعلقات کو ایک بار پھر جوڑنے کا۔ لیکن دیکھا جائے تووہ (ایس سی او) سربراہی اجلاس کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ ابھی آستانہ قزاقستان میں بھی انہوں نے وزیر خارجہ جے شنکر کو بھیج دیا تھا

’پچھلے سال جب انڈیا میزبانی کر رہا تھا تو انہوں نے اجلاس کو ورچوئل (آن لائن) کر دیا تھا کیوں کہ وہ نہیں چاہتے کہ اس سربراہی اجلاس کو اہمیت دی جائے کیوں کہ انڈیا اور چین کے باہمی معلامات بھی خراب ہیں۔‘

قمر چیمہ نے کہا کہ ’بڑا مشکل لگتا ہے کہ نریندر مودی آئیں اور اگر انہوں نے شرکت کی بھی تو آن لائن کریں گے۔ انہوں نے اگر اس کو بہت ہی اہم سمجھا تو شاید وزیر خارجہ جے شنکر کو بھیجیں۔‘

انڈین اور پاکستانی سیاسی قائدین کے درمیان حالیہ پیغامات کا تبادلہ

رواں ماہ 10 جون کو پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف نے نریندر مودی کو تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے پر مبارک باد دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہمیں نفرت کو امید‘ سے بدلنے کی ضرورت ہے۔

نواز شریف نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر مودی کے نام پیغام میں لکھا تھا کہ ’میں مودی جی کو تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے پر مبارک باد دیتا ہوں۔

’حالیہ انتخابات میں آپ کی (نریندر مودی) جماعت کی کامیابی سے آپ کی قیادت پر لوگوں کا اعتماد ظاہر ہوتا ہے۔‘

سابق وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے پیغام میں جنوبی ایشیا میں قیام امن اور باہمی تعاون کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے لکھا تھا کہ ’ہمیں نفرت کو امید سے بدلنا چاہیے اور جنوبی ایشیا کے دو ارب عوام کے مستقبل کو بنانے کے لیے اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس پر انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے نواز شریف کے بیان کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’آپ کے (نواز شریف) پیغام کی قدر کرتے ہیں۔

’انڈیا کے عوام ہمیشہ امن، سلامتی اور ترقی پسند خیالات کے حامی رہے ہیں۔ اپنے عوام کی فلاح و بہبود اور سلامتی کو آگے بڑھانا ہمیشہ ہماری ترجیح رہے گی۔‘

نریندر مودی نے نو جون کو تیسری مرتبہ انڈیا کے وزیر اعظم کے طور پر حلف اٹھایا تھا۔

نواز شریف سے قبل ان کے بھائی اور پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی مودی کو وزیر اعظم بننے پر مبارک باد دی تھی۔

شہباز شریف کی جانب سے ایکس پر مبارک باد کے پیغام کے جواب میں انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی ایکس پر ہی شہباز شریف کا شکریہ ادا کیا ہے۔

پاکستان اور انڈیا کے کشیدہ تعلقات کی تاریخ

پاکستان اور انڈیا کے تعلقات کشیدہ رہے ہیں اور جوہری طاقت کے حامل جنوبی ایشیا کے دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔ تاہم گاہے بہ گاہے پاکستان کی طرف سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ دنیا کی ایک چوتھائی آبادی والے خطے جنوبی ایشیا کی ترقی کے لیے پڑوسی ممالک کے درمیان پرامن اور اچھے تعلقات ضروری ہیں۔

پاکستان اور انڈیا کے تعلقات میں کشیدگی کی ایک بڑی وجہ مسئلہ کشمیر ہے، جس کا ایک حصہ پاکستان اور دوسرا انڈیا کے زیرانتظام ہے۔

پاکستان مسئلہ کشمیر کا حل وہاں کی آبادی کی خواہش اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق چاہتا ہے جبکہ انڈیا اسے اپنے ملک کا حصہ تصور کرتا ہے اور اس نے اگست 2019 میں آرٹیکل 370 کے ذریعے اس کا از خود الحاق اپنے ساتھ کر لیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا