پاکستان میں تعلیم کی صورت حال پر نظر ڈالیں تو سوائے تاریکی کے کچھ نظر نہیں آتا۔ حال ہی میں پلاننگ کمیشن آف پاکستان نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جو اس تاریکی کو مزید گہرا ثابت کر رہی ہے۔
اس رپورٹ میں پاکستان کے 134 اضلاع کی پانچ ڈومینز پر کارکردگی دکھائی گئی ہے۔ ان ڈومینز میں انفراسٹرکچر اور رسائی، شمولیت (ایکوئٹی اور ٹیکنالوجی)، پبلک فنانسنگ، لرننگ، گوورننس اور انتظام شامل ہیں۔ ہر ڈومین کا سکور مختلف پیرامیٹرز کے مطابق تیار کیا گیا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کا قومی تعلیمی سکور محض 53.46 ہے جو کم کارکردگی کی نشاندہی کرتا ہے۔ صوبوں کی بات کریں تو پنجاب 61.39 سکور کے ساتھ سب سے آگے ہے جبکہ بلوچستان 45.50 سکور کے ساتھ سب سے پیچھے ہے۔
یہ اعداد و شمار صرف حکومتی دستاویزات کا حصہ نہیں ہیں بلکہ ہماری آنے والی نسلوں کے مستقبل کا آئینہ ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنے بچوں کو وہ تعلیم فراہم کر پا رہے ہیں جس کے وہ مستحق ہیں؟ کیا ہمارے تعلیمی نظام میں وہ صلاحیت موجود ہے جو ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکے؟
پلاننگ کمیشن کی اس رپورٹ کے مطابق کسی بھی ضلعے کے سکول بہت اچھی کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے ہیں۔ اسلام آباد واحد ضلع ہے جس کی کارکردگی قدرے بہتر رہی ہے ورنہ سب کا حال بے حال ہے۔
بلوچستان کے سکولوں کی کارکردگی سب سے بری ہے جبکہ پنجاب کے سکولوں کی کارکردگی قدرے بہتر ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ملک کا مجموعی لرننگ سکور محض 47.52 ہے، جو قومی سطح پر تعلیمی معیار کی کمزوری کا واضح ثبوت ہے۔ اسلام آباد اور پنجاب اس ڈومین میں نسبتاً بہتر کارکردگی دکھا رہے ہیں، جبکہ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا پیچھے ہیں۔
حیرت انگیز طور پر خیبر پختونخوا میں بہتر گورننس اور انتظام کے باوجود سب سے کم لرننگ سکور (44) ہے، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ صرف بہتر انتظام کافی نہیں ہے۔
یہ سکور تیسری اور چوتھی جماعت کے طلبہ کی کارکردگی، میٹرک کے نتائج اور بالغ خواندگی کی شرح پر مبنی ہیں۔
تاہم، اس ڈومین کے پیرا میٹر ہر صوبے کے اضلاع کے درمیان ایک عجیب تضاد دکھاتے ہیں۔
جن اضلاع میں عمومی تعلیمی کارکردگی کمزور رہی، وہاں میٹرک کے امتحانات میں کامیابی کی شرح زیادہ تھی۔ یہ تضاد کئی سنجیدہ سوالات کھڑے کرتا ہے۔
کیا امتحانی بورڈز اپنی ذمہ داریاں صحیح طریقے سے نبھا رہے ہیں؟ کیا پیپر چیکنگ اور نمبر دینے کے عمل میں کوئی بےضابطگی ہے؟ اگر سکول سال بھر کمزور کارکردگی دکھاتے ہیں تو پھر بورڈ امتحانات میں اچانک بہتر نتائج کیسے حاصل کر لیتے ہیں؟
یہ حیران کن صورت حال صرف ایک صوبے تک محدود نہیں ہے بلکہ پورے ملک میں دیکھنے میں آ رہی ہے۔
اس رپورٹ میں ایک اور تضاد بھی واضح تھا۔ بہتر گورننس اور انتظام والے اضلاع میں سکولوں کا بنیادی ڈھانچہ تو بہتر تھا لیکن ان سکولوں میں تعلیمی معیار کا سکور نمایاں طور پر کم تھا۔
یہ حقیقت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ صرف انتظامی بہتری اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لیے ناکافی ہے۔
اس پیچیدہ مسئلے کا حل متعدد پہلوؤں پر توجہ دینے میں مضمر ہے۔ مثال کے طور پر استاد اور طلبہ کے تناسب کو معقول بنانا، اساتذہ کو غیر تعلیمی ذمہ داریوں سے آزاد کرنا، تدریسی عمل میں انہیں زیادہ خودمختاری دینا، جامع اور عصری تربیتی پروگرام متعارف کرانا، تعلیمی ماحول کو خوشگوار بنانا، جدید وسائل کی فراہمی، طلبہ کے حقوق کا تحفظ، اور معاشرے میں تعلیم کی اہمیت کے بارے میں آگاہی پھیلانا شامل ہیں۔
اگر ہم نے آج اپنے تعلیمی نظام کو درست نہیں کیا تو ہم اپنی آنے والی نسلوں کو ایسے مستقبل کی طرف دھکیلیں گے جہاں وہ اپنے ملک اور دنیا کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔
یہ رپورٹ اس حقیقت کو بھی واضح کرتی ہے کہ تعلیمی بجٹ کا سکولوں پر اثر اگرچہ اہم ہے لیکن یہ تنہا ان کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے ٹھوس کردار ادا نہیں کر سکتا۔ اس رپورٹ میں کچھ اضلاع میں زیادہ مالی وسائل کے باوجود تعلیمی معیار کم رہا۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ مالی وسائل کے ساتھ ساتھ ان کا موثر استعمال بھی اتنا ہی ضروری ہے۔
پاکستان کے تعلیمی نظام کی یہ تصویر ہمیں سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ صرف عمارتیں کھڑی کرنا اور اعداد و شمار پیش کرنا کافی نہیں ہے۔ ہمیں اپنے نظامِ تعلیم کی بنیادی ساخت پر نظرثانی کرنی ہو گی۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ اساتذہ کو صرف تدریس پر توجہ دینے کا موقع دیا جائے، تعلیمی بجٹ کا موثر استعمال یقینی بنایا جائے، ہر ضلع کی مقامی ضروریات کو مدنظر رکھا جائے، امتحانی نظام کی شفافیت کو بہتر بنایا جائے اور معاشرے کو تعلیم کی اہمیت سے آگاہ کیا جائے۔
آج ہم جو بیج بوئیں گے کل وہی ہماری قوم کا مستقبل بنے گا۔ اگر ہم نے آج اپنے تعلیمی نظام کو درست نہیں کیا تو ہم اپنی آنے والی نسلوں کو نہ صرف ایک کمزور تعلیمی میراث دیں گے بلکہ انہیں ایک ایسے مستقبل کی طرف دھکیلیں گے جہاں وہ اپنے ملک اور دنیا کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔
وقت آ گیا ہے کہ ہم محض باتوں سے آگے بڑھیں اور عملی اقدامات کریں۔ کیونکہ جب تعلیم کی بات آتی ہے تو ہم مزید انتظار نہیں کر سکتے۔ ہمارا وقت اب ہے اور ہمارا عمل آج سے شروع ہونا چاہیے۔