سلیم خان ایک نجی کمپنی میں ملازم ہیں۔ ماہانہ تنخواہ 30 ہزار روپے ہے۔ دو بچوں اور ایک بیوی کی ذمہ داری ان پر ہے۔
وہ کئی سالوں سے کوشش کر رہے ہیں کہ اپنے بچوں کو اچھے سکول میں داخل کروائیں لیکن مہنگائی اور کم آمدن کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔
انہوں نے جب خبر پڑھی کہ حکومت نے شرح سود میں مزید 200 بیس پوائنٹ کم کر دی ہے اور چند ماہ میں شرح سود 22 فیصد سے کم ہو کر 17.50 فیصد پر آ گئی ہے۔ تو وہ سوچنے لگے کہ کیا اس سے کھانے پینے کی اشیا، بجلی کا بل اور سکولوں کی فیس بھی کم ہو گی یا نہیں؟
ان کا کہنا ہے کہ ’ابھی تک تو ان کے مالی حالات میں کوئی بہتری نہیں آئی اور اگر شرح سود میں تاریخی کمی کے بعد میرے بچے اچھے سکول میں تعلیم حاصل نہیں کر سکتے تو مجھے اس کا کوئی فائدہ نہیں۔
’حکومت کے مہنگائی کم کرنے اور معاشی استحکام کے تمام دعوے آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔‘
فرح ذیشان گھریلو خاتون ہیں۔ ان کے پاس کچھ رقم جمع تھی۔ وہ اسلامی بینک میں رقم رکھوا کر منافع حاصل کر رہی تھیں جس سے گھر کا خرچ اچھے طریقے سے چل رہا تھا۔ لیکن جب سے شرح سود کم ہونا شروع ہوئی ہے ان کے بینک منافع میں بھی کمی آنا شروع ہو گئی ہے۔
فرح کا کہنا ہے کہ ’بازار میں مہنگائی بڑھ رہی ہے اور میری آمدن کم ہو رہی ہے۔ حکومت نہ جانے کون سا حساب لگا کر کہتی ہے کہ مہنگائی کم ہو گئی ہے۔ اگر شرح سود اسی طرح کم ہوتی رہی تو میرے لیے گھر کے اخراجات چلانا مشکل ہو جائے گا۔‘
ہارون صاحب ٹیسکٹائل ایکسپورٹ کا کاروبار کرتے ہیں۔ وہ شرح سود کم ہونے سے زیادہ خوش نہیں ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’میرا مسئلہ شرح سود نہیں بلکہ بجلی کے بل ہیں۔ بینک سے قرض لیے بغیر کاروبار کیا جا سکتا ہے لیکن مہنگی بجلی کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر مقابلہ کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
’ملک کی 125 سپننگ ملیں مہنگی بجلی کی وجہ سے بند ہوئی ہیں۔ ملکی صورت حال کی وجہ سے فرانس کا میرا ایک کلائنٹ سپلائی چین کے حوالے سے تشویش کا اظہار کر رہا تھا۔
’اصل مسئلہ یہ ہے کہ ملک کا امیج خراب ہو رہا ہے۔ مجھ سمیت کئی صنعت کار سنجیدگی سے سوچ رہے ہیں کہ سرمایہ بیرون ملک منتقل کیا جائے۔ سرکار سے گزارش ہے کہ شرح سود کم کرنے کے ساتھ بجلی کی قیمت کم کرے۔
’بصورت دیگر میں اور مجھ جیسے کئی ایکسپورٹر ملک چھورنے کو ترجیح دیں گے۔ اس سے بےروزگاری بڑھ سکتی ہے اور عام آدمی بری طرح متاثر ہوسکتا ہے۔‘
لاہور چمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر کاشف انور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’شرح سود کم ہونے کا عام آدمی کو فائدہ نہیں ہو گا صرف انہیں فائدہ ہو گا جنھوں نے پہلے سے قرض لے رکھا ہے۔
’شرح سود کم ہونے سے بینکوں میں پڑا پیسہ صنعت لگانے پر نہیں لگے گا بلکہ ملک سے باہر چلا جائے گا کیونکہ ملک میں سرمایہ کاری کی فضا نہیں ہے اور ہمارے ملک میں پیسہ باہر جانے سے روکنے کا کوئی موثر نظام موجود نہیں ہے۔
’صرف شرح سود کم کرنے سے کام نہیں بنے گا بلکہ کاروبار کرنے کے لیے سہولیات بھی دینا ہوں گی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان سے پیسہ منتقل کر کے آج بھی دبئی میں دھڑا دھڑ پراپرٹیز خریدی جا رہی ہیں۔ کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔
’مسئلہ یہ نہیں کہ عوام کے پاس پیسہ نہیں ہے، مسئلہ یہ بھی نہیں کہ عوام ملک میں سرمایہ کاری نہیں کرنا چاہتی مسئلہ یہ ہے کہ حکومت نے کاروبار کرنے کا خرچ اتنا بڑھا دیا ہے کہ شرح سود کم ہونا اب زیادہ معنی نہیں رکھتا۔
’ریٹ کم ہونے سے عوام گھر، گاڑی کے لیے بینکوں سے نئے قرض نہیں لے گی کیونکہ ریٹ ابھی بھی زیادہ ہے۔‘
ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولیپلرزآف پاکستان کے چیرمین آصف سم سم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’شرح سود کم ہونا اچھی بات ہے لیکن اسے سنگل ڈیجٹ میں آنا چاہیے۔ ہمارا مطالبہ تھا کہ شرح سو 500 بیس پوائنٹس کم کی جائے اور اگلے مراحلے میں سنگل ڈیجٹ میں لائی جائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’سنگل ڈیجٹ شرح سود ہونے سے رئیل سٹیٹ سیکٹر تیزی پکڑ سکتا ہے۔ گو کہ حکومت نے غیر ضروری ٹیکسز کی بھرمار کر رکھی ہے لیکن ہم پرامید ہیں کہ شرح سود کم ہونے سے رئیل سٹیٹ سے جڑی 50 سے زیادہ صنعتیں بھی چل پڑیں گی اور عام آدمی کی زندگی میں بھی بہتری آئے گی۔‘
کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جزل سیکرٹری ظفر پراچہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’شرح سود کم ہونے سے منی ایکسچیبج کاروبار کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
’کیونکہ ہم بینکوں سے قرض نہیں لیتے بلکہ سو فیصد اپنا سرمایہ لگاتے ہیں۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے بلکل درست کام کیا ہے۔
’صحیح وقت میں صحیح فیصلہ کیا گیا ہے۔ شرح سود کم کرنے سے حکومت کو بھی فائدہ ہو گا کیونکہ سرکار نے جو قرض لے رکھا ہے اس کی سود ادائیگی کم ہو گی۔
’کاروباری طبقے کو بھی فائدہ ہو گا لیکن وہ یہ فائدہ عوام کو منتقل کرتے ہیں یا نہیں یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ اس حوالے سے کاروباری طبقے کا ماضی کا ریکارڈ اچھا نہیں ہے۔‘
صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’شرح سود مہنگائی سے جڑی ہے اگر مہنگائی نو فیصد ہے تو شرح سود ساڑھے 17 فیصد کیوں ہے؟ اس ریٹ پر کاروبار نہیں ہو سکتا۔
’کم از کم 420 پوائنٹ کمی ہونی چاہیے تھی۔ اگر شرح سود دس فیصد تک آجائے اور آئی پی پیز کو ایک ٹریلین کپیسٹی چارجز دینے بند کر دیے جائیں تو کاروباری طبقے اور عام عوام کی معاشی حالت بدل سکتی ہے۔‘
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔