پاکستانی فوج کا ایک طاقتور حصہ اس کی انٹیلی جنس ایجنسی (آئی ایس آئی) ہے اور عموماً ملک میں دو عسکری عہدے ایسے ہیں جن کا ذکر بیشتر حلقوں میں رہتا ہے یعنی ایک آرمی چیف اور دوسرا آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل کا منصب۔
ملک کے سب سے بڑے اور منظم ادارے کی کمان پہلے ہی جنرل عاصم منیر کے پاس ہے، اب ایک اور عاصم رواں ماہ بطور آئی ایس آئی سربراہ آ رہے ہیں، یعنی اب ایک نہیں دو عاصم ہوں گے۔
حکومت کی جانب سے منگل کو اعلان کیا گیا کہ لفٹیننٹ جنرل محمد عاصم ملک کو آئی ایس آئی کا ڈی جی تعینات کیا گیا ہے جو 30 ستمبر کو منصب سنبھالیں گے۔
حکومت کا یہ اقدام ایک معصومانہ فیصلہ تھا کہ آرمی چیف کے بعد اب آئی ایس آئی کے سربراہ بھی عاصم ہی ہوں گے یا ایسا محض اتفاقیہ ہوا؟
خیر جیسے بھی ہوا ہو، اہم فیصلوں میں دو طاقتور عاصم کا کردار اب نمایاں ہو گا۔
حکومت تو پہلے ہی بظاہر جنرل عاصم منیر پر فریفتہ ہے اب انہیں ایک اور عاصم بھی مل گئے ہیں۔
عاصم کے لفظی معنی ہیں کیا؟ یہ جاننے کے لیے میں لغت کا سہارا لیا کیوں کہ اس سے پہلے تو میرے لیے یہ ایک عام سا ہی نام تھا لیکن اب اسے چار اور تین ستارے لگ چکے ہیں اس لیے کچھ چھان بین کے بعد معلوم ہوا کہ عاصم کے معنی ہیں ’حفاظت کرنے والا، پارسا، خود کو گناہ سے بچانے والا۔‘
اس سے تو یوں ہی لگتا ہے کہ اب حفاظت کرنے والے دو ہو گئے ہیں۔
اور اگر جذبات کو الگ رکھ کر سوچوں تو ایک سوال جو پچھلے کچھ گھنٹوں سے ذہن میں گونج رہا ہے وہ یہ ہے کہ کیا اسے ’دورِ عاصم‘ کہنا درست ہو گا؟ اس سوال کا جواب نہ تو اب آسان ہے اور نہ ہی ایسے سوالات کے جوابات کبھی پہلے آسان رہے۔
اب جو بھی ہو گا، دو عاصم جو فیصلے کریں گے اس سے ہی تعین ہو گا کہ یہ دور کس کا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بحرحال ملک کو حفاطت کرنے والے کی ضرورت تو ہے ہی اور اگر ایسا محافظ مل جائے جو خود کو گناہ سے بچائے تو پھر کیا ہی بات ہے۔
کچھ پرانے اور اب نئے عاصم صاحب مرکز نگاہ ہوں گے، وہ کام جو جنرل عاصم منیر کرنا چاہتے ہوں گے انہیں بھی ایک اور عاصم مل گیا ہے جو ان کی معاونت کریں گے۔
کیونکہ خبریں ہی ہمارا اوڑھنا، بچھونا ہیں اس لیے کبھی کبھی ابہام بھی پیدا ہو سکتا ہے کہ خبر میں کونسے عاصم کا ذکر ہو رہا ہے اور پھر اس کی بوقت ضرورت وضاحت بھی کرنی ہو گی۔
مجھے یاد ہے کہ ایک وقت جب نواز شریف وزیراعظم اور جنرل راحیل شریف آرمی چیف تھے تو صرف شریف کہنے سے بات واضح نہیں ہوتی تھی۔
میری نظر سے کئی ایسی خبریں بھی گزریں جہاں یہ وضاحت کی گئی نواز شریف اور راحیل شریف رشتہ دار نہیں ہیں بلکہ نام کے آخر میں شریف آنا محض اتفاق ہے۔
چلیں دو شریفوں کا دور تو گزر گیا۔
اب عاصم صاحبان کا دور ہے اور توقع ہی کی جا سکتی ہے کہ یہ ملک اور یہاں بسنے والوں کے لیے ’حفاظت‘ کا دور ہو گا۔