دلربا بیگم مشرقی لندن کی کائی سے بھری نہر میں چپو کی مدد سے ایک چھوٹی کشتی چلا رہی ہیں، جن کے سامنے ایک ٹرینی بیٹھی ہیں۔
دو سال پہلے جب دلربا 43 سال کی عمر میں بطور ایک ماں اپنی ذمہ داریوں میں مصروف تھیں، انہیں ایک دوست نے ان کے گھر کے قریب خواتین کے لیے وقف اس فری پیڈلنگ سپورٹس پروگرام کے بارے میں بتایا۔
مقامی ہاؤسنگ اور کمیونٹی ری جنریشن تنظیم ’پاپلر ایچ اے آر سی اے‘ کے اس پروگرام میں حصہ لینے کے بعد اب وہ ایک قابل پیڈلنگ انسٹرکٹر ہیں۔
دلربا اور ان کی ساتھی پیڈلرز نئے امکانات کھوج رہی ہیں اور لندن کے کم ترقی یافتہ مشرقی محلوں کی خواتین کو اس واٹر سپورٹس کو اپنانے کی ترغیب دے رہی ہیں۔
یہ ان جیسی نسلی اقلیتوں کے لیے ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہے، جن کے پاس وسیع وسائل اور محدود تفریحی تک رسائی نہیں۔
پچھلے دو سالوں میں اس پائلٹ پروجیکٹ کا آغاز 18 خواتین کے ساتھ ہوا، جو اب تقریباً 70 خواتین کے گروپ تک بڑھ گیا ہے۔
دلربا نے اے ایف پی کو بتایا کہ ان میں وہ خواتین بھی شامل ہیں جو ’کام کر رہی ہیں، کچھ ایسی مائیں ہیں جو اپنی ذمہ داریوں کے باعث کچھ سالوں سے گھر سے باہر نہیں نکل سکیں۔
دلربا اور عطیہ زمان سمیت نو خواتین نے بطور انسٹرکٹر کوالیفائی کیا اور لندن کا پہلا بوٹ کلب خواتین اور مسلمان برادری کے ساتھ شروع کیا۔
بارش سے بھیگی ہوئی ستمبر کی دوپہر کو انہوں نے اپنے پہلے سیشن کی قیادت کی جس میں خواتین کے ایک چھوٹے سے گروپ کو چپو سے کشتی چلانے کے بارے میں سکھایا گیا۔
لائف جیکٹس سنبھالنے کے بعد انہوں نے کشتیوں میں اترنے سے پہلے ایک چھوٹی جیٹی پر شرکا کو کشتی چلانے کی مختلف طریقوں کا عملی مظاہرہ کر کے دکھایا۔
یہ نہر مشرقی لندن پاپلر اور بوؤ جیسے علاقوں سے گزرتی ہے جو شہر کے سب سے پسماندہ اور گنجان آباد علاقوں میں سے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس اقدام کا ایک مقصد پاپلر میں موجود آبی گزرگاہوں تک مقامی لوگوں کی رسائی کو بہتر بنانا ہے۔
عطیہ نے اپنی نارنجی رنگ کی کشتی چلاتے ہوئے بتایا: ’میں نہر کے پاس رہتی ہوں، اور میں ہر وقت لوگوں کو (اس پر) سفر کرتے دیکھ کر ہمیشہ سوچتی تھی کہ اگر میں بھی ایسا کر سکوں تو کیسا لگے گا؟‘
پاپلر سے تعلق رکھنے والی جینیفا حامد نے کہا کہ سیاہ فام، ایشیائی اور اقلیتی نسلی کے پس منظر سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ سوچتے تھے کہ واٹر سپورٹس شاید ان کے لیے نہیں۔
یہ ڈوبنے کے خوف کے ساتھ ساتھ ثقافتی اور مذہبی وجوہات کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے۔
سپورٹ انگلینڈ کے 2017 سے 2019 کے اعداد و شمار کے مطابق چینی باشندوں کو چھوڑ کر ایک فیصد سے بھی کم ایشیائی باشندوں نے واٹر سپورٹس میں حصہ لیا اور ایسی برادریوں کی تیراکی کی سرگرمیوں میں نمائندگی بھی کم تھی۔
پروگرام کو صرف خواتین کے لیے بنانے اور مکمل (اسلامی) لباس پہننے کی اجازت نے اسے مقامی مسلم خواتین کے لیے خوش آئند بنا دیا۔
47 سالہ نسیمہ بیگم، جو ابتدائی کلاسز کا حصہ تھیں، اب ایک انسٹرکٹر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایشیائی خواتین سکارف پہن کر اس کھیل میں حصہ لے سکتی ہیں۔
نقاب پہن کر نسیمہ یہ دکھانا چاہتی تھی کہ آپ کچھ بھی پہن کر یہ کر سکتی ہیں۔ موزوں ساز و سامان کے ساتھ کوئی بھی اس میں حصہ لے سکتا ہے۔
خواتین کم قیمت کی وجہ سے بھی اس جانب راغب ہوئیں۔ نسیمہ نے کہا کہ پرائیویٹ بوٹنگ کلب کافی مہنگے اور ناقابل برداشت ہیں۔
ان کے بقول: ’اگر آپ کی فیملی ہے تو آپ گزارا کرنے کے لیے رقم کو اس طرح کی سرگرمیوں پر خرچ نہیں کر سکتے تھے۔‘
نسیمہ اب ’اور اینڈ ایکسپلور‘ نامی بوٹ کلب کی سربراہ ہیں۔ عطیہ اور دلربا کے ساتھ وہ امید کرتی ہیں کہ علاقے کے لیے ایک پلان کی گئی نئی جیٹی کے ذریعے اپنی کشتیاں اور سٹوریج کی جگہ حاصل کرنے کے لیے فنڈز اکٹھا کر لیں گی۔
دلربا نے کہا: ’جس طرح میں نے محسوس کیا، جو لطف اور اعتماد میں نے اس کھیل سے حاصل کیا، میں اسے دوسروں تک پہنچانا چاہتی ہوں اور انہیں بتانا چاہتی ہوں کہ زندگی میں اور بھی بہت کچھ ہے۔‘
عطیہ بھی اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’کووڈ کے دوران گھر میں تین چھوٹے بچوں کے ساتھ وقت بہت مشکل تھا، اور پھر کام کا بہت دباؤ تھا۔ یہ ان سب سے فرار ہونے کا ایک طریقہ ہے۔‘