اسرائیل نے منگل کو تصدیق کی ہے کہ اس نے حزب اللہ کے مرحوم رہنما حسن نصراللہ کے جانشین ہاشم صفی الدین کو ایک حملے میں مار دیا۔مبینہ حملہ حزب اللہ کو نشانہ بنانے کے لیے گذشتہ ماہ کیا گیا تھا۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ صفی الدین تین ہفتے قبل بیروت کے جنوبی مضافات میں کیے گئے ایک حملے میں مارے گئے تھے۔ حزب اللہ نے اسرائیل کے اس بیان پر کوئی فوری ردعمل نہیں دیا۔
حسن نصر اللہ کے قتل کے بعد ہاشم صفی الدین حزب اللہ کی سب سے طاقت ور شخصیت اور حسن نصر اللہ کے کزن تھے اور ان ہی کی طرح عالم دین اور سیاہ عمامہ پہنتے تھے۔
وہ حزب اللہ کی ایگزیکٹیو کونسل کے سربراہ تھے جس کے ذمے تنظیم کے مالیاتی امور اور لاجسٹکس کی نگرانی کرنا ہے۔ وہ تنظیم کی انٹیلیجنس اور فوجی کارروائیوں کے ماہر تھے اور جہاد کونسل سینئر رکن بھی۔
حزب اللہ کے لیے طویل عرصے تک خدمات، حسن نصر اللہ سے رشتہ داری اور ان سے مشابہت ایسے عوامل تھے جن کے باعث صفی الدین کو حزب اللہ کا نیا سربراہ بننے کی راہ ہموار ہوئی۔
60 سالہ صفی الدین، حسن نصراللہ سے گہری مشابہت رکھتے تھے لیکن عمر میں ان سے کئی سال چھوٹے تھے۔
ایران سے قربت
ہاشم صفی الدین نے ایرانی شہر قم میں دورانِ تعلیم کئی برس گزارے۔ وہ ایران کے رہبرِ اعلیٰ علی خامنہ ای کے بھی قریب تھے۔
وہ 1980 کی دہائی میں مذہبی تعلیم کے حصول کے لیے قم گئے، جب ان کی عمر صرف 16 برس تھی۔ اس دوران حسن نصر اللہ بھی قم ہی میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔
ان کے بیٹے رضا پاسدارانِ انقلاب کے مقتول جنرل قاسم سلیمانی کی بیٹی زینب کے خاوند ہیں۔
جنرل سلیمانی کو امریکہ نے 2020 میں بغداد میں ایک ڈرون حملے میں قتل کر دیا تھا۔ صفی الدین کے بھائی عبداللہ ایران میں حزب اللہ کے نمائندے ہیں۔
فلسطینی کاز سے وابستگی
امریکی محکمہ خارجہ نے 2017 میں انہیں دہشت گرد قرار دیا تھا۔ جون میں انہوں نے ایک اور حزب اللہ کمانڈر کی موت کے بعد اسرائیل کے خلاف بڑے پیمانے پر جوابی کارروائی کی دھمکی دی تھی۔
انہوں نے جنازے کے موقعے پر کہا تھا ’دشمن تیار ہو جائے کہ رونے اور چلانے کا وقت آ چکا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صفی الدین کے عوامی بیانات اکثر حزب اللہ کے عسکری موقف کی عکاسی کرتے تھے اور ان سے فلسطینی کاز کے ساتھ تنظیم کی وابستگی ظاہر ہوتی ہے۔
حال ہی میں بیروت کے جنوبی نواحی علاقے ضاحیہ میں حزب اللہ کے مضبوط گڑھ میں ایک تقریب کے دوران انہوں نے فلسطینی عسکریت پسندوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا: ’ہماری تاریخ، ہماری بندوقیں اور ہمارے راکٹ تمہارے ساتھ ہیں۔‘
حزب اللہ پر نظر رکھنے والے ماہر فلپ سمتھ کے مطابق: ’حسن نصراللہ نے انہیں تنظیم کی مختلف کونسلوں میں مختلف عہدوں پر فائز کیا۔ ان میں سے کچھ کونسلوں میں ان کا کردار واضح اور کچھ میں پس پردہ رہا۔ ان کونسلوں کی بدولت انہیں سامنے آ کر بات کرنے کا موقع ملا۔
انہوں نے امریکی پالیسی پر کھل کر تنقید بھی کی۔ 2017 میں حزب اللہ پر امریکی دباؤ کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’ذہنی طور پر معذور اور پاگل امریکی انتظامیہ جس کی قیادت ٹرمپ کر رہے ہیں، مزاحمت کو نقصان نہیں پہنچا سکے گی۔‘ انہوں اس بات پر زور دیا کہ ایسی کوششیں حزب اللہ کے عزم کو مزید مضبوط کریں گی۔
اے ایف پی کے مطابق ہاشم صفی الدین حزب اللہ کی نمایاں ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ ان کے ایران کے ساتھ گہرے مذہبی اور خاندانی تعلقات تھے۔
ہاشم صفی الدین جنوبی لبنان کے شہر دير قانون النهر میں 1964 میں ایک مذہبی خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔
شعلہ بیان مقرر
نصراللہ کی طرح صفی الدین بھی سیاسی طور پر متحرک اور اپنی شعلہ بیانی کی وجہ سے مشہور تھے۔
ان کی تقریروں کا بنیادی موضوع اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کرنا اور اس کا جواب دینے کا عزم ہوتا تھا۔
13 جولائی، 2024 کو ایک تقریر میں انہوں نے کہا تھا: ’اگر ہمارا فرض، جیسا کہ آج ہے، اس دشمن سے لڑنا اور اپنے شہیدوں کو پیش کرنا ہے، تو ہم سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہیں، یقین ہے کہ اللہ ہمیں فتح دے گا جیسا کہ اس نے 2006 میں دی تھی۔‘
نصر اللہ کی طرح صفی الدین نے بھی اکثر اس بات کا اعادہ کیا کہ حزب اللہ غزہ کے محاذ کی حمایت اس وقت تک بند نہیں کرے گی جب تک اسرائیل اپنی جارحیت بند نہیں کر دیتا، جس میں گذشتہ اکتوبر سے اب تک 41 ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔
سب سے مضبوط امیدوار
عام طور پر پرسکون رہنے والے صفی الدین نے اسرائیل کے ساتھ تقریباً ایک سال جاری رہنے والی سرحدی جھڑپوں میں مارے جانے والے حزب اللہ جنگجوؤں کے جنازوں میں تند و تیز بیانات دیے۔
کارڈف یونیورسٹی میں حزب اللہ کی ماہر لبنانی محققہ امل سعد کے مطابق، کئی سال سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ صفی الدین نصراللہ کے ’سب سے زیادہ ممکنہ جانشین‘ ہیں۔
انہوں نے کہا: ’اگلا رہنما شوریٰ کونسل کا رکن ہونا ضروری ہے، جس کے چند ارکان ہیں، اور اسے ایک مذہبی شخصیت ہونا چاہیے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’صفی الدین ’بہت زیادہ اختیارات کے مالک ہیں۔ وہ سب سے مضبوط امیدوار ہیں۔‘
حزب اللہ کو ایرانی پاسداران انقلاب کی مدد سے قائم کیا گیا تھا اور اسرائیلی فوجیوں کے خلاف لڑائی کی وجہ سے اسے ’مزاحمت‘ کا نام ملا۔ اسرائیلی فوج 2000 تک جنوبی لبنان پر قابض رہ چکی ہے۔
یہ تحریک لبنان کی خانہ جنگی کے دوران اُس وقت قائم ہوئی جب 1982 میں اسرائیل نے بیروت کا محاصرہ کیا۔
جولائی میں بیروت کے جنوبی نواح میں ایک تقریر کے دوران صفی الدین نے حزب اللہ کی قیادت کی جانشینی کے بارے میں کہا: ’ہماری مزاحمت میں جب کوئی بھی رہنما جان سے جاتا ہے، دوسرا پرچم تھام لیتا ہے اور نئے، مضبوط اور پختہ عزم کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔‘