فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین راشد لنگڑیال نے حال ہی میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ ملک میں 50 فیصد غیر قانونی سگریٹ فروخت ہو رہے ہیں اور ان کو ٹریس کرنے والے اہلکار صرف 100 ہیں۔
دوسری جانب نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی تحقیق مختلف اعدادوشمار پیش کر رہی ہے۔
صورت حال زیادہ گھمبیر ہے اور چیئرمین ایف بی آر شاید احتیاط سے کام لے رہے ہیں۔
اس تحقیق کے مطابق ملک میں غیر قانونی سگریٹس کی فروخت تقریباً 63 فیصد سے زیادہ ہے، تقریباً 37 فیصد سگریٹس قانونی طور پر فروخت ہوتے ہیں اور ٹیکس شاید صرف 20 فیصد کا جمع ہوتا ہے۔
ایک تاثر یہ بھی ہے کہ جب سے سگریٹ پر ٹیکس بڑھا ہے، اس کی غیر قانونی فروخت بڑھی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق سگریٹ کی غیر قانونی فروخت سے ملکی خزانے کو تقریباً 350 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔
2021 میں یہ اعدادوشمار الٹ تھے۔ اُس وقت تقریباً 37 فیصد فروخت غیر قانونی اور 63 فیصد قانونی تھی۔
اعدادوشمار سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت جانتی ہے مسئلہ کیا ہے لیکن وہ اسے حل کرنا نہیں چاہتی۔
گلوبل یوتھ ٹوبیکو سروے کی ایک تحقیق کے مطابق سگریٹ کی غیر قانونی فروخت سے ایک طرف ملکی معیشت کو نقصان پہنچ رہا ہے تو دوسری طرف عام آدمی کے لیے بھی روز بروز صحت کے مسائل بڑھ رہے ہیں۔
تقریباً 14 فیصد لڑکے اور سات فیصد لڑکیاں (جن کی عمر 15 سال سے کم ہے) تمباکو استعمال کرتی ہیں۔
گذشتہ سال کی رپورٹ کے مطابق یومیہ تقریباً 470 اور سالانہ تقریباً ایک لاکھ 71 ہزار سے زیادہ افراد سگریٹ نوشی کی وجہ سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پی آئی ڈی ای) کی تیار کردہ ایک رپورٹ کے مطابق 24 ملین فعال تمباکو استعمال کرنے والے ممالک کے ساتھ، پاکستان دنیا کے سب سے زیادہ تمباکو استعمال کرنے والے ممالک میں شامل ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رواں مالی سال میں 200 ارب روپے ٹیکس اکٹھا ہونے کی توقع ہے، جبکہ پچھلے سال 148 ارب روپے ٹیکس وصول ہوا تھا۔
جتنا ٹیکس سگریٹ کی فروخت سے حاصل ہو رہا ہے، اس سے کئی گنا زیادہ سگریٹ نوشی کی وجہ سے پیدا ہونے والے صحت کے مسائل حل کرنے پر خرچ ہو رہا ہے۔
سگریٹ پر ٹیکس بڑھانے کی وجہ اس کے نقصان کی تلافی کرنا ہے لیکن وہ نہیں ہو رہی۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم نیٹ ورک فار کنزیومر پروٹیکشن کے مطابق فیڈرل ایکسائز ایکٹ 2005 کے تحت کوئی بھی کمپنی سگریٹ برانڈ کا کوئی بھی ایسا ورژن فروخت نہیں کرسکتی، جس کی قیمت اسی برانڈ فیملی میں موجود سگریٹ برانڈ سے کم رکھی گئی ہو۔
اس کے باوجود ایک کمپنی نے نیا سگریٹ برانڈ لانچ کیا ہے، جس کی قیمت اس کے موجودہ فیملی برانڈ کی قیمت سے کم ہے، تاکہ اسے بچوں اور کم آمدن والے گھروں تک پہنچایا جا سکے۔
روزانہ تقریباً 1200 سے زائد بچے سگریٹ نوشی کا آغاز کر رہے ہیں۔ قومی سطح پر قانون کی سر عام دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں اور کوئی روک نہیں رہا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت اور سگریٹ کمپنیاں مبینہ طور پر آپس میں ملی ہوئی ہیں اور یہ سب سرکار کی آشیرباد سے ہو رہا ہے۔
کیمپین فار ٹوبیکو فری کڈز کے کنٹری ہیڈ ملک عمران احمد کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں سگریٹ کے سنگل سٹکس (کھلے سگریٹ) بیچنے پر پابندی ہے لیکن اس کی سرعام خلاف ورزی ہو رہی ہے اور کوئی روکنے والا نہیں۔‘
’اب غریب طبقے اور بچوں تک سگریٹ پہنچانے کے لیے 10 سٹکس والی سستی پیکنگ تیار کرنے کی اجازت کی کوششیں جاری ہیں اور وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ 10 والی پیکنگ سوڈان اور دیگر ممالک میں برآمد کی جائے گی۔
’لیکن ایک مرتبہ پیکنگ کی اجازت مل جائے تو یہ سرعام لوکل بھی فروخت ہوں گی۔ اس سے غیر قانونی طور پر سگریٹ کی فروخت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’آج کل کے نوجوانوں میں عام سگریٹ کی جگہ ای سگریٹ متعارف کروائی جا رہی ہے اور سرکار نے اس کی درآمدات کی اجازت بھی دے رکھی ہے۔
’تقریباً پانچ فیصد نوجوان ای سگریٹ کی طرف منتقل ہو چکے ہیں۔ انہیں جدید نام دے کر فیشن کے طور پر متعارف کروایا جا رہا ہے۔
’آج کل یہ ای ہکا، موڈز، ویپ پنز، ویپس، ٹینک سسٹمز اور الیکٹرانک نکوٹین ڈیلیوری سسٹم کے نام سے متعارف کروائے جا رہے ہیں۔‘
ملک عمران احمد کے مطابق: ’سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی کینٹین پر غیر قانونی طور پر سگریٹ بیچے جاتے ہیں۔ تعلیمی اداروں کے بالکل سامنے کھوکھے پر سگریٹ بیچے جاتے ہیں۔
’سکولوں اور کالجوں کے قریب سگریٹ بیچنا پاکستانی قانون کے مطابق جرم ہے۔ بچوں تک سگریٹ پہنچانے کے لیے ان کے مختلف فلیورز اور رنگ بھی موجود ہیں۔
ؔچاکلیٹ اور ونیلا سمیت مختلف ذائقوں کے چھوٹے سگریٹ بچوں کے لیے بنائے اور سمگل کیے جاتے ہیں اور ان کی قیمت کم رکھنے کے لیے گھٹیا کوالٹی والا تمباکو استعمال کیا جاتا ہے۔‘
سوسائٹی فار دی پروٹیکشن آف دی رائٹس آف دی چائلڈ (سپارک)کے مطابق بھی تمباکو کی صنعت کی طرف سے بیرون ملک ایکسپورٹ کرنے کے بہانے 10 سٹک والے سگریٹ کے پیک کی تیاری کے لیے منظوری حاصل کرنے کی کوششوں پر تشویش ظاہر کی گئی ہے۔
دوسری جانب ملک کے سکیورٹی ادارے سگریٹ سمگلنگ سے ملکی معیشت کو ہونے والے نقصان کو روکنے کے لیے کوشاں دکھائی دیتے ہیں۔
حال ہی میں جعلی سگریٹ کے تین بڑے غیر قانونی مینوفیکچرنگ یونٹس اور خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی میں ایک غیر اعلانیہ گودام پر چھاپے کے نتیجے میں 10 لاکھ 30 ہزار کلوگرام نان ڈیوٹی تمباکو برآمد کی گئی، جس کے ذریعے تقریباً 2.645 ارب روپے کی فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی چوری کی گئی تھی، لیکن یہ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
سگریٹ کی غیر قانونی فروخت پر قابو نہ پا سکنے کی وجہ تمباکو انڈسٹری کے بڑے ناموں کا اسمبلی میں موجود ہونا بھی ہے، جس کی وجہ سے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم لاگو ہی نہیں ہو پا رہا۔
جب تک سیاسی اور کاروباری نیٹ ورک نہیں ٹوٹتا سگریٹ کی غیر قانونی تجارت پر قابو پانا مشکل ہے۔