’اب خوش ہوں‘: طالبان حکومت میں کاروبار کرنے والی افغان خواتین

زینب فیروزی ان بہت سی خواتین میں سے ایک ہیں جنہوں نے اپنی ضروریات کو پورا کرنے اور دیگر افغان خواتین کی مدد کرنے کے لیے گذشتہ تین سالوں میں چھوٹے کاروبار شروع کیے ہیں، جن کی ملازمتیں 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد تیزی سے کم ہو گئی تھیں۔

کابل میں چند خواتین 10 نومبر 2024 کو کپڑے سینے کا کام کر رہی ہیں (اے ایف پی)

جب زینب فیروزی نے دیکھا کہ طالبان  کے اقتدار سنبھالنے کے بعد افغان خواتین اپنے گھر والوں کا پیٹ پالنے کے لیے سخت جدوجہد کر رہی ہیں تو انہوں نے اپنی جمع پونجی کاروبار شروع کرنے پر لگا دی۔

سلائی کی کلاسوں سے ملنے والے 20,000 افغانی (300 ڈالر) کو قالین سازی کے کاروبار میں لگانے کے ڈھائی سال بعد، اب ان کے پاس تقریبا ایک درجن  وہ خواتین ملازم ہیں جن کا کام ختم ہو گیا تھا یا جنہیں طالبان حکومت کے قوانین کی وجہ سے اپنی تعلیم چھوڑنی پڑی۔

39 سالہ خاتون، جو مغربی صوبہ ہرات میں کاروبار کرتی ہیں، نے بتایا کہ وہ اپنے چھ افراد پر مشتمل خاندان کے تمام ’گھریلو اخراجات‘ بھی خود اٹھاتی ہیں۔ یہ بات انہوں نے اے ایف پی کو اپنے دفتر سے بتائی، جہاں رنگ برنگے اور نفاست سے بنے ہوئے قالینوں اور بیگز کے نمونے سجے ہوئے ہیں۔

ان کے شوہر، جو ایک مزدور ہیں، انہیں افغانستان میں کام نہیں مل رہا۔

فیروزی ان بہت سی خواتین میں سے ایک ہیں جنہوں نے اپنی ضروریات کو پورا کرنے اور دیگر افغان خواتین کی مدد کرنے کے لیے گذشتہ تین سالوں میں چھوٹے کاروبار شروع کیے ہیں، جن کی ملازمتیں 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد تیزی سے کم ہو گئی تھیں۔

یو این ویمن کے مطابق طالبان کے اقتدار پر قبضے سے قبل سرکاری شعبے میں کام کرنے والی خواتین کی تعداد 26 فیصد تھی جو اب کم ہو کر ’صفر رہ گئی‘ ہے۔

اقوام متحدہ کی جانب سے لڑکیوں اور خواتین کے ثانوی سکولوں اور یونیورسٹیوں میں داخلے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے جسے اقوام متحدہ نے ’صنفی امتیاز‘ قرار دیا ہے۔

ایک بچے کی ماں 28 سالہ طوبیٰ زاہد کو جب مجبوراً یونیورسٹی کی تعلیم چھوڑنی پڑی تو انہوں نے دارالحکومت کابل میں اپنے گھر کے چھوٹے سے تہہ خانے میں جام اور اچار بنانا شروع کیا تھا۔

انہوں نے کہا ’میں کاروبار کی دنیا میں آئی ۔۔۔ خواتین کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی غرض سے تاکہ وہ ایسی آمدنی حاصل کرسکیں جو کم از کم ان کی فوری ضروریات کو پورا کرے۔‘

اس کے نصف درجن ملازمین، جنہوں نے لمبے سفید کوٹ پہنے ہوئے تھے، جام اور اچار بوتلوں میں بھر رہے تھے جن پر لیبل لگا تھا ’ماں کے مزیدار گھریلو کھانے‘۔

کاروباری اداروں کی بڑھتی ہوئی تعداد

اگرچہ عورتیں اشیا بنا رہی ہیں، لیکن افغانستان میں دکانیں چلانا زیادہ تر مردوں کا کام ہے۔

افغانستان ویمن چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (اے ڈبلیو سی سی آئی) کی چیئر ویمن فریبا نوری نے کہا کہ طوبیٰ زاہد جیسی سیلز وومن ’اپنی مصنوعات کی تشہیر اور فروخت کرنے کے لیے بازار نہیں جا سکتیں۔‘

افغان کاروباری خواتین کے لیے ایک اور مسئلہ ’محرم‘ کی ضرورت ہے — یعنی ایک مرد خاندان کا رکن جو انہیں دوسرے شہروں یا صوبوں میں خام مال خریدنے کے لیے ہمراہ لے جائے۔

40 سال تک مسلسل جنگ کے بعد، بہت سی افغان خواتین بیوہ ہو چکی ہیں اور ان کے بہت سے مرد رشتہ دار زندہ نہیں ہیں۔

نوری کے مطابق، ان مسائل کے باوجود، طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد سے اے ڈبلیو سی سی آئی میں رجسٹرڈ کاروباری اداروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

نوری نے کہا کہ یہ تعداد ’600 بڑی کمپنیوں سے بڑھ کر 10،000 ہو گئی‘ جن میں زیادہ تر چھوٹے، گھریلو کاروبار اور کچھ بڑی کمپنیاں شامل ہیں۔ وہ خود بھی 12 سے کاروبار کر رہی ہیں۔

خدیجہ محمدی، جن کی نجی سکول میں پڑھانے کی ملازمت چلی گئی تھی، نے 2022 میں اپنا برانڈ شروع کیا تھا، اب ان کے پاس 200 سے زیادہ خواتین کپڑے سلائی اور قالین بنانے کے کام کرتی ہیں۔

اس 26 سالہ خاتون نے کہا کہ ’مجھے ہر اس خاتون پر فخر ہے جو کسی دوسری خاتون کو خود مختار بننے میں مدد دے رہی ہے۔‘

اگرچہ محمدی جیسے کاروبار ایک لائف لائن ہیں، لیکن 5،000 سے 13،000 افغانی کی تنخواہ سے تمام اخراجات پورے نہیں ہو سکتے اور بہت سی خواتین اب بھی معاشی مشکلات کا شکار ہیں۔

2023 میں طالبان حکام کی جانب سے بیوٹی سیلونز پر پابندی عائد کیے جانے کے بعد بیوٹیشن کی نوکری سے محروم ہونے والی قمر قاسمی کا کہنا تھا کہ ان کی تنخواہ کے باوجود وہ اور ان کے شوہر کو کرایہ ادا کرنے اور اپنے آٹھ افراد پر مشتمل خاندان کا پیٹ بھرنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔

اس 24 سالہ لڑکی نے کہا، ’جب میں بیوٹی سیلون میں کام کرتی تھی، تو ہم ایک دلہن کا سٹائل بنانے کے تین ہزار سے سات ہزار افغانی کما سکتے تھے، لیکن یہاں ہمیں ماہانہ پانچ ہزار ملتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا، ’یہ اس کے برابر تو نہیں، لیکن میرے پاس اور کوئی چارہ نہیں ہے۔‘

صرف خواتین والی جگہیں

بیوٹی سیلونز کی بندش نہ صرف مالی دھچکا تھا بلکہ خواتین کے لیے سماجی رابطے کی اہم جگہیں بھی ختم ہو گئیں۔

زہرہ گونیش نے شمال مشرقی صوبہ بدخشاں میں صرف خواتین کے لیے جگہ بنانے کی غرض سے ایک ریستوراں کھولنے کا فیصلہ کیا۔

اس 20 سالہ کاروباری لڑکی نے کہا، عورتیں یہاں آ سکتی ہیں اور آرام کر سکتی ہیں۔ ہم چاہتے تھے کہ ملازمین بھی خواتین ہوں تاکہ خواتین گاہک یہاں آرام دہ محسوس کرسکیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 لیکن 2022 میں18 سال کی عمر میں کاروبار کا آغاز کرنا ایسے ملک میں آسان نہیں تھا جہاں ورلڈ بینک کے خواتین کی لیبر فورس میں شرکت عالمی اوسط سے 10 گنا کم ہے۔

اپنے والد کو اس کے لیے قائل کرنے میں گونیش کو ایک ہفتہ لگا۔

اپنے اہل خانہ کی مدد کرنے اور میل جول کے لیے جگہ کے علاوہ، کچھ خواتین نے کہا کہ کام نے انہیں مقصد کا احساس دیا ہے۔

15 سالہ سمیہ احمدی مجبوراً سکول چھوڑنے کے بعد ڈپریشن کا شکار ہوئیں تو انہوں نے اپنے والدین کی مدد کے لیے فیروزی کی کارپٹ کمپنی میں کام شروع کر دیا تھا۔

’(اب) میں بہت خوش ہوں اور مجھے اب ذہنی صحت کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ میں  پہلے سے زیادہ خوش ہوں اور بہتر محسوس کرتی ہوں‘

اس کام نے انہیں ایک نیا مقصد بھی دیا ہے، اپنے دونوں بھائیوں کی مدد کرنا تاکہ وہ اپنا مستقبل بہتر بنا سکیں۔

انہوں نے کہا ’چونکہ سکولوں کے دروازے لڑکیوں کے لیے بند ہیں، اس لیے میں اپنے بھائیوں کی خاطر کام کرتی ہوں تاکہ وہ تعلیم حاصل کر سکیں اور اپنی زندگی میں کچھ اچھا کر سکیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین