کراچی میں نوجوان خواتین فلم سازوں کی جانب سے موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے بنائی گئی دستاویزی فلموں کی نمائش میں پاکستان کی مختلف کمیونٹیز کو درپیش ان مسائل کو اجاگر کیا گیا جو عام طور پر نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔
نمائش میں پیش کی گئی دستاویزی فلمیں تخلیق کرنے والی خواتین فلم سازوں کا تعلق کراچی سے لے کر ہنزہ و گلگت تک پاکستان کے مختلف علاقوں سے تھا۔
دستاویزی فلموں کی تیاری کے لیے خواتین کی تربیت دو مرتبہ آسکر ایوارڈ یافتہ فلم ساز شرمین عبید چنائے کی زیر نگرانی کی گئی اور رواں برس 10 خواتین کو سات ماہ کی تربیت فراہم کی گئی، جس کے بعد انہیں دو دو کی جوڑیوں میں تقسیم کرکے پانچ دستاویزی فلمیں تیار کی گئیں۔
ان خواتین فلم سازوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ دستاویزی فلم بنانا ایک مشکل کام ہے، جس کے لیے تربیت کے ساتھ ساتھ سرمائے کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور اگر انہیں یہ مالی معاونت فراہم نہ کی جاتی تو ان کے لیے کام کرنا شاید ممکن نہ ہوتا۔
نمائش میں پیش کی گئی دستاویزی فلموں میں سے ایک صوبہ سندھ کے علاقے تھر پارکر میں آسمانی بجلی گرنے سے متاثرہ افراد پر بنائی گئی، دوسری دریائے ستلج اور اس کے گرد رہنے والے افراد کی زندگی پر مبنی تھی جبکہ تیسری دستاویزی فلم کراچی کے مضافاتی علاقے ریڑھی گوٹھ کے ماہی گیروں کی زندگی پر مبنی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چوتھی دستاویزی فلم پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ میں رہنے والی دو ٹرانس جینڈرز کی کہانی ہے، جو سیلاب کی وجہ سے اپنا سب کچھ کھو بیٹھی تھیں، جبکہ پانچویں دستاویزی فلم ہنزہ کے علاقے افگرچ کے بارے میں ہے جو موسمیاتی تبدیلی کا شکار ہو کر اجڑ گیا ہے۔
اس بارے میں انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے شرمین عبید چنائے کا کہنا تھا کہ تین برس پہلے ’پٹاخہ پکچرز‘ کے نام سے خواتین کی تربیت اور سرپرستی کا آغاز کیا تھا اور ارادہ یہ تھا کہ انہیں تربیت کے ساتھ ساتھ مالی معاونت بھی فراہم کی جائے تاکہ وہ اپنی کہانیاں اپنے انداز میں سنا سکیں۔
بقول شرمین عبید چنائے: ’گذشتہ تین برسوں سے اب تک 40 خواتین فلم سازوں کی تربیت اور معاونت کی گئی ہے جن کی بنائی ہوئی دستاویزی فلموں نے کئی عالمی ایوارڈز جیتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ رواں برس تیار کی گئی دستاویزی فلمیں دنیا کے مختلف ممالک میں ہونے والے فلمی میلوں میں پیش کی جائیں گی، جس سے ان فلم سازوں کی حوصلہ افزائی ہو گی اور ماحولیاتی تبدیلی کے مسئلے کو بھی اجاگر کرنے میں مدد ملے گی۔
شرمین کے مطابق پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے، اس لیے رواں برس یہ موضوع اپنایا گیا۔
ہنزہ سے تعلق رکھنے والی نگینہ جبین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کی دستاویزی فلم ’ہوپ ان ڈیزاسٹر‘ کا موضوع ایک گاؤں ہے، جو سیلاب کے بعد باقی علاقے سے کٹ گیا اور وہاں کے باسیوں کو اپنی زمینیں اور مکان چھوڑ کر ہجرت کرنا پڑی، یہ کہانی ان کے مسائل پر مبنی ہے۔
اسی طرح مائرہ پاشا نے کراچی کے مضافاتی علاقے ’ریڑھی گوٹھ: دی اَن سین چیپٹر‘ پر جو دستاویزی فلم بنائی، وہ اُن ماہی گیروں کی کہانی ہے جن کا روزگار سمندر میں صنعتی فضلہ پھینکے جانے کی وجہ سے تباہ ہو گیا اور اب وہاں بےروزگاری کی وجہ سے جرائم میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اب وہاں کی خواتین ان ہی فیکٹریوں میں کام کر رہی ہیں، جن کے فضلے کی وجہ سے ان کا روزگار ختم ہو گیا تھا۔
تھر پارکر میں آسمانی بجلی گرنے کے مسلسل واقعات کے نتیجے میں متاثر ہونے والے افراد کے بارے میں پیش کی جانے والی دستاویزی فلم کا نام ’لوسٹ ٹو دا لائٹ‘ ہے، اس کی فلم ساز نمرہ سکندر نے انڈپینڈںٹ کو بتایا کہ ہمیں بارش پسند ہوتی ہے، لیکن تھر پارکر میں آسمانی بجلی کے گرنے کے مسلسل واقعات میں لوگ جان سے جا رہے ہیں اور جو بچ بھی جاتے ہیں وہ کام کاج کے قابل نہیں رہتے۔
ان کا کہنا تھا کہ تھر پارکر میں بارش ہی پر زراعت کا دارومدار ہے لیکن بارش بڑھنے سے وہاں آسمانی بجلی گرنے کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جس سے وہاں کے عوام کافی متاثر ہو رہے ہیں۔
صوبہ پنجاب کے دریائے ستلج کے متعلق بنائی گئی دستاویزی فلم ’دا مدر، دا سنز، اینڈ دا ہولی ریور‘ تھی، جس کی اپنی ایک تاریخ ہے کہ کبھی اس کی پوجا کی جاتی تھی اور آج دریا اور اس کے اردگرد رہنے والے اس میں آںے والے سیلاب سے خوفزدہ رہتے ہیں۔
شرمین عبید چنائے نے کہا کہ آئندہ برس مرد فلمسازوں کو بھی اس پروگرام میں شامل کیا جائے گا، جن کا تعلق پاکستان اور افغانستان کے سرحدی قبائلی علاقے سے ہوگا، جو اپنے علاقوں کے بارے میں دستاویزی فلمیں تیار کریں گے۔