ٹی ٹی پی 6 ہزار جنگجوؤں کے ساتھ افغانستان میں سب سے بڑی ’دہشت گرد‘ تنظیم ہے: منیر اکرم

منیر اکرم نے کہا کہ کابل حکام نے ٹی ٹی پی کی سرحد پار دہشت گردی میں ’بعض اوقات سہولت کاری بھی کی۔‘

10 فروری 2025 کو اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم سلامتی کونسل  کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے (اقوام متحدہ میں پاکستان کا مشن/ ایکس)

اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب، سفیر منیر اکرم نے 10 مارچ کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں افغانستان میں ’دہشت گرد‘ گروہوں، بالخصوص تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی موجودگی پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ  کابل حکام نہ صرف ان گروہوں کے خلاف کارروائی میں ناکام رہے ہیں بلکہ بعض معاملات میں ان کی پشت پناہی بھی کر رہے ہیں۔

سفیر منیر اکرم نے کہا کہ ’ٹی ٹی پی 6000 جنگجوؤں کے ساتھ افغانستان میں سرگرم سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم ہے، جو پاکستان کے فوجی، شہری اور ریاستی اداروں پر حملے کر رہی ہے۔

’ہمارے پاس ایسے شواہد موجود ہیں کہ کابل حکام نے ٹی ٹی پی کی سرحد پار دہشت گردی میں بعض اوقات سہولت کاری بھی کی۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ٹی ٹی پی نہ صرف پاکستان کے لیے بلکہ پورے خطے کے لیے ایک بڑھتا ہوا خطرہ بنتی جا رہی ہے۔‘

پاکستانی مندوب نے اس امر پر زور دیا کہ پاکستان اپنی قومی سلامتی کے دفاع کے لیے ہر ضروری اقدام کرے گا، جس میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں بھی شامل ہیں۔

انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ ’ہم اپنی سلامتی اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی قوانین کے مطابق تمام ممکنہ اقدامات کریں گے۔‘

افغانستان کی طرف سے منیر اکرم کے اس بیان پر فوری ردعمل تو سامنے نہیں آیا البتہ ماضی میں افغان طالبان کی حکومت یہ کہتی رہی ہے کہ وہ عسکریت پسندی کے لیے اپنی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گی۔ 

عالمی برادری اور کابل حکام کی ذمہ داری

سفیر منیر اکرم نے کہا کہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ کابل حکام داعش سے تو برسرپیکار ہیں لیکن افغانستان میں موجود دیگر دہشت گرد گروہوں جیسے القاعدہ، ٹی ٹی پی اور بلوچ دہشت گردوں ( بی ایل اے) اور مجید بریگیڈ کے خلاف مؤثر کارروائی میں ناکام رہے ہیں، جو پورے خطے کے امن کے لیے خطرہ ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ افغانستان سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کیے جائیں۔

انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ افغانستان میں موجود دہشت گردوں کے ہاتھوں میں جدید ہتھیاروں کی موجودگی خطرناک ہے۔ 

ان کا کہنا تھا: ’ہمارے سکیورٹی ادارے سرحد پار سے آنے والے دہشت گردوں سے ایسے جدید ہتھیار برآمد کر چکے ہیں جو غیر ملکی افواج کے چھوڑے گئے ذخائر سے افغان حکام نے حاصل کیے ہیں۔ کابل انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان ہتھیاروں کو دہشت گرد گروہوں سے واپس لے۔‘

پاکستانی مندوب نے چین، ایران، روس اور پاکستان کے وزرائے خارجہ کے 27 ستمبر 2024 کے وزارتی اجلاس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ اجلاس افغانستان سے دہشت گرد گروہوں کے خاتمے کے لیے ایک اہم قدم تھا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’پاکستان علاقائی اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف مؤثر کارروائیاں کرنے کے لیے پرعزم ہے۔‘

سفیر منیر اکرم نے اقوام متحدہ کی افغانستان سے متعلق حالیہ رپورٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس میں دہشت گردی جیسے اہم مسئلے کو نظر انداز کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’یہ حیرت کی بات ہے کہ سیکرٹری جنرل کی رپورٹ میں افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کے بڑھتے ہوئے خطرے کا کوئی تفصیلی ذکر نہیں ہے۔‘

افغان پناہ گزینوں کی واپسی پر زور

پاکستانی مندوب نے افغانستان میں استحکام کے لیے افغان مہاجرین کی جلد از جلد واپسی پر بھی زور دیا اور کہا کہ پاکستان مزید پناہ گزینوں کی میزبانی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

انہوں نے واضح کیا کہ غیر قانونی افغان باشندوں کی ملک بدری کا عمل جاری رہے گا، خاص طور پر وہ افراد جو غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔

سفیر منیر اکرم نے عالمی برادری پر زور دیا کہ افغانستان میں امن و استحکام کے لیے دہشت گرد گروہوں کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں۔

انہوں نے کہا: ’40 سالہ جنگ کے بعد، افغان عوام امن کے مستحق ہیں، اور اس کا واحد راستہ دہشت گرد گروہوں کے خاتمے اور ایک مستحکم حکومت کے قیام میں ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ