’پوری طاقت‘ کے ساتھ شدت پسندی سے نمٹا جائے: پارلیمانی کمیٹی

پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا خصوصی ان کیمرا اجلاس خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حالیہ حملوں میں اضافے کے تناظر میں بلایا گیا تھا۔

وزیر اعظم شہباز شریف منگل کی شام قومی اسمبلی کے فلور پر پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے ان کیمرا اجلاس سے خطاب کر رہے ہیں (پی ٹی وی سکرین گریب)

پاکستان کی پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے اجلاس نے ’پوری طاقت‘ کے ساتھ شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنے اور متحد سیاسی عزم کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں ملک کی قومی سیاسی و عسکری قیادت نے دہشت گردوں اور شدت پسندوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔

منگل کو سپیکر قومی اسمبلی کی سربراہی پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا خصوصی ان کیمرا اجلاس ہوا جس میں وزیر اعظم شہباز شریف، پارلیمانی کمیٹی کے ارکان شریک ہوئے۔

اجلاس میں سیاسی قائدین، آرمی چیف، اہم دفاعی و حکومتی شخصیات اور سکیورٹی اداروں کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

اجلاس کے اختتام پر وزیر اعظم شہباز شریف نے کمیٹی کا اعلامیہ پڑھ کر سنایا۔

اعلامیے کے مطابق: ’قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی نے دہشت گردی کی حالیہ کارروائیوں کی واضح الفاظ میں شدید مذمت کی اور متاثرہ خاندانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔‘

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’قومی سیاسی و عسکری قیادت نے دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا ہے۔‘

کمیٹی نے ’ریاست کی پوری طاقت‘ کے ساتھ اس خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے سٹریٹجک اور ایک متفقہ سیاسی عزم پر زور دیتے ہوئے انسداد دہشت گردی کے لیے قومی اتفاق کی ضرورت پر زور دیا۔

اعلامیے کے مطابق کمیٹی نے دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کو ختم کرنے، لاجسٹک سپورٹ کے انسداد اور دہشت گردی و جرائم کے گٹھ جوڑ کو ختم کرنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان اور عزم استحکام کی حکمت عملی پر فوری عمل درآمد پر زور دیا۔

کمیٹی نے پروپیگنڈا پھیلانے، اپنے پیروکاروں کو بھرتی کرنے اور حملوں کو مربوط کرنے کے لیے دہشت گرد گروپوں کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے بڑھتے ہوئے غلط استعمال پر تشویش کا اظہار کیا اور اس کی روک تھام کیلئے اقدامات پر زور دیا۔

کمیٹی نے ’دہشت گردوں‘ کے ڈیجیٹل نیٹ ورکس کے سدباب کے لیے طریقہ کار وضح کرنے پر بھی زور دیا۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ افواج پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے کمیٹی نے ان کی قربانیوں اور ملکی دفاع کے عزم کا اعتراف کیا اور کہا کہ قوم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مسلح افواج، پولیس، فرنٹیئر کانسٹیبلری اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہے۔

کمیٹی نے اس بات کا اعادہ کیا کہ دشمن قوتوں کے ساتھ ملی بھگت سے کام کرنے والے کسی بھی ادارے  فرد یا گروہ کو پاکستان کے امن و استحکام کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ کمیٹی نے حزب اختلاف کے بعض اراکین کی عدم شرکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اعادہ کیا کہ اس بارے میں مشاورت کا عمل جاری رہے گا۔

کمیٹی نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے آپریشن کرنے کے لیے سکیورٹی فورسز، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بہادری اور پیشہ ورانہ مہارت کو سراہتے ہوئے دہشت گردی کو اس کی تمام شکلوں میں ختم کرنے کے لیے پاکستان کے غیر متزلزل عزم کا اعادہ کیا۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ کمیٹی نے قومی سلامتی کی موجودہ صورتحال اور دہشت گردی کی حالیہ لہر پر تفصیلی غور کیا۔

اعلامیہ کے مطابق فورم نے زور دیا کہ دہشت گردوں کے سہولت کاروں کا خاتمہ ممکن بنانے کیلئے مربوط اور منظم حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ دہشت گردی کی حمایت کرنے والے کسی بھی گروہ کے خلاف مؤثر کارروائی کی جائے گی۔

اعلامیے کے مطابق کمیٹی نے سوشل میڈیا پر دہشتگردی کے بیانیے کو فروغ دینے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی سفارش کی اور کہا کہ پاکستانی اداروں کو قانون نافذ کرنے اور قومی سلامتی کے معاملات میں مکمل آزادی ہونی چاہیے۔

کمیٹی نے اس بات پر زور دیا کہ دہشت گردی کے خاتمے کےلیے تمام ضروری اقدامات کیے جائیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی مزید بہتر بنانے کےلیے وسائل فراہم کیے جائیں۔

پارلیمانی کمیٹی نے زور دیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کسی بھی ادارے، فرد یا گروہ کو کمزوری نہیں دکھانی چاہیے۔ مضبوط اور مربوط حکمت عملی کے تحت قومی سلامتی کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔

آرمی چیف کا خطاب

چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر کا قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی سے خطاب میں کہا کہ ملک کی سلامتی سے بڑھ کر کوئی ایجنڈا، کوئی تحریک اور کوئی شخصیت نہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ پائیدار استحکام کے لیے ضروری ہے کہ قومی طاقت کے تمام عناصر مکمل ہم آہنگی کے ساتھ کام کریں۔ یہ ہماری اور ہماری آنے والی نسلوں کی بقا کی جنگ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں بہتر گورننس کی ضرورت ہے اور پاکستان کو ایک مضبوط ریاست بنانا ہو گا۔ ہم کب تک سافٹ ریاست بن کر بے پناہ جانوں کی قربانیاں دیتے رہیں گے؟ گورننس میں پیدا ہونے والے خلا کو کب تک افواجِ پاکستان اور شہدا کے خون سے پُر کرتے رہیں گے؟‘

انہوں نے علما سے درخواست ہے کہ وہ شدت پسندوں کی جانب سے اسلام کی مسخ شدہ تشریح کا پردہ چاک کریں۔

’اگر یہ ملک ہے تو ہم ہیں، لہٰذا ملک کی سلامتی سے بڑھ کر ہمارے لیے کچھ بھی نہیں۔ پاکستان کے تحفظ کے لیے ہمیں یک زبان ہو کر اپنے سیاسی اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر ایک متفقہ بیانیہ اپنانا ہوگا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ دہشت گردوں کے ذریعے پاکستان کو کمزور کر سکتے ہیں، انہیں آج واضح پیغام دیتے ہیں کہ ہم متحد ہو کر نہ صرف دہشت گردوں بلکہ ان کے تمام سہولت کاروں کو بھی ناکام بنائیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سے قبل ملک میں شدت پسندی کے بڑھتے ہوئے واقعات، خصوصاً بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں حالیہ حملوں کے تناظر میں وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا اِن کیمرا اجلاس آج (بروز منگل) ہو رہا ہے۔

وزیراعظم آفس کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق نے پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا اجلاس منگل کو دوپہر 12 بجے طلب کیا تھا۔

یہ اجلاس قومی اسمبلی ہال میں منعقد ہو رہا ہے، جس میں پارلیمان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی رہنما اور ان کے نامزد نمائندے شریک ہیں، تاہم پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اجلاس میں شریک نہیں ہوئی۔

اجلاس میں عسکری قیادت، پارلیمانی کمیٹی کو ملک کی موجوہ سکیورٹی صورت حال پر بریفنگ دے گی۔

یہ اہم اجلاس بلوچستان کے ضلع بولان میں جعفر ایکسپریس، نوشکی میں سکیورٹی فورسز کے قافلے اور خیبرپختونخوا کے ضلع ٹانک میں جنڈولہ کے مقام پر ایف سی چیک پوسٹ پر عسکریت پسندوں کے حملوں جیسے واقعات کے تناظر میں طلب کیا گیا ہے۔

خیبر پختونخوا اور بلوچستان حالیہ دنوں میں شدت پسندی کا سب سے زیادہ نشانہ بنے ہیں۔ گلوبل ٹیررزم انڈیکس 2025 کی رپورٹ کے مطابق 2024 میں پاکستان میں ہونے والے 96 فیصد سے زائد شدت پسند حملے اور اموات انہی دو صوبوں میں ہوئی ہیں۔

شدت پسندی کے بڑھے ان حالیہ واقعات میں سب سے بڑا واقعہ بلوچستان میں 11 مارچ کو کو پیش آیا جب کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس پر بولان پاس کے علاقے ڈھاڈر میں علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لیبریشن آرمی (بی ایل اے) نے حملہ کر کے 400 سے زائد مسافروں کو یرغمال بنا لیا تھا۔

تاہم بعد میں سکیورٹی فورسز نے کارروائی کرتے ہوئے مسافروں کو بازیاب کروا لیا تھا جبکہ سکیورٹی حکام کے مطابق کلیئرنس آپریشن کے دوران حملہ کرنے والے تمام شدت پسندوں کو بھی مار دیا گیا تھا۔

اس کے بعد 16 مارچ کو بلوچستان ہی کے علاقے نوشکی میں سکیورٹی فورسز کے قافلے پر حملے میں تین اہلکار اور دو شہری جان سے گئے تھے۔

اسی طرح خیبرپختونخوا کے ضلع ٹانک میں 13 مارچ کو جنڈولہ کے مقام پر ایف سی چیک پوسٹ پر عسکریت پسندوں نے حملہ کیا تھا، جسے حکام کے مطابق ناکام بنا دیا گیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان