جنوبی عراق کے محفوظ میسوپوٹیمیائی دلدلی علاقوں سے تیل نکالنے کے منصوبوں نے دیہاتیوں اور کارکنوں کو متحرک کر دیا ہے، جو ان افسانوی آبی علاقوں کو بچانے کے لیے پرعزم ہیں اور پہلے ہی کئی برسوں کی خشک سالی سے متاثر ہو چکے ہیں۔
دلدلی علاقوں میں کام کرنے والے کارکن مرتضیٰ الجنوبی نے ایک اجلاس میں کہا: ’ہم اسے کبھی قبول نہیں کریں گے۔‘ اس اجلاس میں وہ فکر مند مقامی رہائشیوں کو تسلی دے رہے تھے۔
یہ لوگ ایک روایتی ہال میں جمع تھے جو انہی دلدلی علاقوں کی لکڑی سے بنائی گئی چھتوں سے تیار کیا گیا تاکہ حکومت کے یونیسکو میں شامل اس علاقے سے متعلق منصوبوں پر گفتگو کی جا سکے، جو ان کا گھر ہے۔
حاضرین محفل نے سر ہلا کر ان کی تائید کی۔
33 سالہ الجنوبی نے عراق اور ایران کی سرحد پر واقع ان دلدلی زمینوں کے دورے کے دوران اے ایف پی کو بتایا کہ ’اگر ہم ہوازہ کے دلدلی علاقوں کو بچانے میں ناکام رہے تو ایک تاریخی دور اپنے ورثے کے ساتھ اور جنوبی شناخت سمیت ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں گے۔‘
ایک اور کارکن جن کی رنگت دھوپ کی وجہ سے سانولی ہو رہی تھی، کا کہنا تھا کہ ہزاروں سال پر محیط ان دلدلی علاقوں کی تاریخ، جو بائبل میں مذکور جنتِ عدن کا مسکن سمجھے جاتے ہیں، ’اس آئل فیلڈ کے ساتھ ہی ختم ہو جائے گی۔‘
2023 میں، جب چین عراق کے مختلف شعبوں میں ایک بڑا کردار ادا کرنے لگا، تو اس تیل سے مالا مال ملک نے ہوازہ فیلڈ میں تیل کی تلاش کے حقوق چینی کمپنی کو دے دیے۔
صوبہ میسان میں واقع ابو خصاف گاؤں کے کئی رہائشیوں نے کہا کہ اس وقت وہ اس فیصلے کے مضمرات کو پوری طرح سمجھ نہیں پائے تھے۔
رہائشیوں نے بتایا کہ ’صرف اسی سال، جب بھاری مشینری زلزلہ پیما مطالعات کے لیے لائی گئی اور ایک نئی سڑک بنانے کا کام شروع ہوا تو انہوں نے اس دلدلی علاقے کے لیے ’خطرہ‘ محسوس کیا، جو ان کے روایتی طرز زندگی کا سہارا رہا ہے۔‘
حکومت کا کہنا ہے کہ ’تیل اور ماحولیات کی وزارتیں مل کر کام کر رہی ہیں تاکہ ان دلدلی علاقوں کو نقصان سے بچایا جا سکے اور کوئی بھی سرگرمی دلدل کے اندر نہیں بلکہ اس کے قریب ہو گی۔
مارچ میں اس علاقے کی سیٹلائٹ تصاویر، جو اے ایف پی کو پلانٹ لیبز سے حاصل ہوئیں، میں بھاری گاڑیوں کے چھوڑے گئے نشانات صاف دکھائی دیتے ہیں۔
ڈچ امن تنظیم پی اے ایکس سے وابستہ ِوم زوائینن برگ نے کہا کہ تصاویر اس بات کی نشان دہی کرتی ہیں کہ ’دلدلی علاقوں کی نباتات میں 1.3 کلومیٹر طویل کچی سڑک کی تیزی سے تعمیر‘ کی جا رہی ہے۔
’ہم صرف پانی چاہتے ہیں‘
صوبہ میسان میں پہلے ہی تیل کے کئی ذخائر موجود ہیں، جن میں سے ایک دلدلی علاقوں سے صرف چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آئل فیلڈ سے خارج ہونے والی گیس آسمان کو گھنے سرمئی دھوئیں سے بھر دیتی ہے، اور اس کے شعلے ان ماہی گیر کشتیوں سے بھی دکھائی دیتے ہیں جو ان دلدلی علاقوں میں گھومتی ہیں۔
یہ علاقے شدید خشک سالی اور پانی کی مسلسل کمی کے باعث پہلے ہی بری طرح متاثر ہیں۔
دجلہ اور فرات کے درمیان واقع میسوپوٹیمیائی دلدلی علاقے ان دریاؤں اور اُن کی شاخوں پر انحصار کرتے ہیں جو ہمسایہ ممالک ترکی اور ایران سے آتی ہیں۔
کم بارش، پانی کی آمد میں کمی، جس کا الزام ماحولیاتی تبدیلی نے پانی کی شدید قلت پیدا کر دی ہے، جس کے دلدلی ماحولیاتی نظام پر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
رہائشیوں کو خدشہ ہے کہ گرمیوں میں دلدلی علاقے خشک ہو جائیں گے، اور وہ اس امید پر ہیں کہ طویل عرصے سے غائب اچھی بارشوں کا موسم انہیں دوبارہ زندہ کرے گا۔
کئی علاقوں میں پانی کی موجودہ سطح ایک میٹر (تین فٹ) سے بھی کم ہے۔ ام النعاج جھیل، جو کبھی مچھلیوں سے بھری رہتی تھی، اب صرف تین میٹر گہری رہ گئی ہے جب کہ خشک سالی سے پہلے اس کی گہرائی کم از کم چھ میٹر ہوا کرتی تھی۔
جھیل پر اپنی کشتی چلاتے ہوئے 80 سالہ ماہی گیر کاظم علی نے کہا کہ اگرچہ نیا منصوبہ کچھ نوکریاں پیدا کر سکتا ہے، ’لیکن ہم عام لوگ اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ ’ہمیں صرف پانی چاہیے۔‘
بھینسیں پالنے والے 28 سالہ رسول الغربی نے کہا کہ وہ کبھی ’دلدلی علاقوں اور ان کے ساتھ ملنے والی آزادی‘ کو نہیں چھوڑیں گے، چاہے تیل کی کمپنی انہیں نوکری ہی کیوں نہ دے۔
محفوظ مرکز
مارچ کی ایک ٹھنڈی صبح، رسول الغابی جب اپنی بھینسوں کو چراگاہ کی طرف لے جا رہے تھے، تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ مزدور تاریں بچھا رہے ہیں اور سوراخ کر رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ایک کیبل کی وجہ سے ان کے جانوروں میں سے ایک لڑکھڑا گیا۔
یہ دلدلی علاقے ایک مرکزی حصے پر مشتمل ہیں جو متعدد اقسام کی نسلوں، بشمول نقل مکانی کرنے والے آبی پرندوں، کے لیے مسکن کا کام دیتا ہے، اور اس کے اردگرد ایک حفاظتی زون موجود ہے۔
کارکنوں نے حکام پر الزام عائد کیا کہ وہ مرکزی علاقے میں زلزلہ پیما مطالعات کر رہے ہیں، جس کی ریاستی ملکیت والی میسان آئل کمپنی تردید کرتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ علاقے میں نظر آنے والی گاڑیاں دراصل قریبی ایک علیحدہ فیلڈ پر کام کر رہی تھیں اور اب وہاں سے روانہ ہو چکی ہیں۔
ہوازہ آئل فیلڈ 1970 کی دہائی میں دریافت ہوئی اور عراق اسے ایران کے ساتھ شیئر کرتا ہے جو طویل عرصے سے وہاں سے تیل نکال رہا ہے۔
میسان آئل کمپنی کا کہنا ہے کہ فیلڈ کے 300 مربع کلومیٹر (116 مربع میل) رقبے کا دلدلی علاقوں کے حفاظتی زون سے تداخل ہے، مگر آئل فیلڈ مرکزی علاقے پر قبضہ نہیں کرتی۔
کمپنی نے کہا کہ 2024 میں مکمل ہونے والی ماحولیاتی اثرات کی جانچ ’فیلڈ میں کام کے لیے بنیادی حوالہ‘ فراہم کرے گی، اور مزید کہا کہ تلاش کا عمل ’قدرتی ماحول کو نقصان پہنچائے بغیر‘ انجام دیا جائے گا۔
ماحولیات کی وزارت کے اہلکار جاسم فلاحی کے مطابق، دلدلی علاقوں کا محفوظ درجہ ترقیاتی منصوبوں کے لیے رکاوٹ نہیں بنتا۔
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا: ’لیکن سرمایہ کاری مخصوص شرائط اور معیارات کی پابند ہے، جو مرکزی علاقے کو متاثر نہ کرے. اور نہ ہی مقام یا اس کی حیاتیاتی تنوع پر اثر ڈالے۔‘
توازن
عراقی کارکن احمد صالح نعیمہ، جو دلدلی علاقوں کے تحفظ کے ایک پرجوش حامی ہیں، نے خدشہ ظاہر کیا کہ تیل کمپنیاں ممکنہ طور پر ضابطوں کی پاسداری نہیں کریں گی اور دلدلی علاقوں کو مزید خشک کر دیں گی۔
یونیسکو کے ترجمان نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’حالیہ برسوں میں دلدلی علاقوں پر تیل سے متعلق سرگرمیوں کے ممکنہ اثرات پر خدشات کا اظہار کیا گیا ہے۔‘
سرحد کے اس پار ایران میں، مقامی میڈیا طویل عرصے سے تیل کے منصوبوں کے ماحولیاتی اثرات کے بارے میں خبردار کرتا آ رہا ہے۔
رواں سال کے اوائل میں، ایرانی دلدلی علاقوں، جنہیں ہورالعظیم کے نام سے جانا جاتا ہے، میں دو دہائیوں سے جاری تیل کی سرگرمیوں پر ایک رپورٹ میں تسنیم نیوز ایجنسی نے کہا کہ توانائی کمپنیوں نے پانی کے بہاؤ کو روک دیا ہے اور بنیادی ڈھانچہ تعمیر کرنے کے لیے علاقے خشک کر دیے گئے ہیں۔
تسنیم نے یہ بھی کہا کہ آئل فیلڈز نے پانی کے ذخائر کو آلودہ کر دیا۔
ماحولیاتی کارکن نعیمہ کا کہنا تھا کہ حکام کو چاہیے کہ وہ ’دو عظیم وسائل یعنی تیل اور دلدلی علاقے کے درمیان توازن قائم کریں‘۔
عراق تیل پیدا کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے ممالک میں شامل ہے، اور خام تیل کی فروخت ریاستی آمدنی کا 90 فیصد حصہ فراہم کرتی ہے۔
نعیمہ نے کہا کہ جہاں تیل مالی لحاظ سے ناگزیر ہے، وہیں دلدلی علاقے مقامی لوگوں کی روزی روٹی، ’عراق کی تہذیب، لوک روایت، اور شہرت‘ کی نمائندگی کرتے ہیں،
ابو خصاف گاؤں میں، جنوبى نے کہا: ’ہمارے علاقے میں پہلے ہی تیل کے ذخائر کی بھرمار ہے، کیا یہ کافی نہیں؟‘
’ہمارے دلدلی علاقے چھوڑ دو۔‘