لوگ کھیل سے اتنا پیار کیوں کرتے ہیں؟

لوگ کھیل سے اتنا پیار کیوں کرتے ہیں؟ اس سوال کا جواب دینے کے لیے ہمیں قدیم تاریخ میں جھانکنا ہوگا۔

دنیا بھر میں ماضیِ قدیم سے لوگ مختلف قسم کے کھیل کھیلتے چلے آئے ہیں (اینواتو)

اب دنیا بھر میں کھیل سے متعلق کچھ دیکھے یا سنے بغیر دن گزارنا تقریباً ناممکن ہے۔

کسی بھی شہر یا قصبے میں چہل قدمی کریں تو آپ کو اکثر لوگ کسی نہ کسی کھیل میں حصہ لیتے نظر آئیں گے، چاہے وہ ٹیم کی صورت میں ہو یا اکیلے ہی کسی کھیل میں مشغول ہوں۔

ٹی وی یا ریڈیو آن کریں تو آپ کو قومی یا بین الاقوامی سطح پر کھیلا جانے والا کوئی نہ کوئی کھیل ضرور دیکھنے یا سننے کو مل جائے گا۔

تو لوگ کھیل سے اتنا پیار کیوں کرتے ہیں؟

اس سوال کا جواب دینے کے لیے ہمیں قدیم تاریخ میں جھانکنا ہوگا۔

 قدیم نقطہ نظر

سائنسی جریدے ’دا کنورسیشن‘ کے مطابق قدیم دنیا کی مشہور ترین شخصیات میں سے ایک سینٹ آگسٹین آف ہپو (354 تا 430 عیسوی) نے ایک بار لکھا کہ جب وہ بچے تھے تو کھیلوں کے دیوانے تھے۔

ان کے بقول: ’مجھے بچپن میں گیند سے کھیلنا بہت پسند تھا اور میری یہ دلچسپی میری پڑھائی میں رکاوٹ بنی۔‘

سینٹ آگسٹین اتنے زیادہ کھیل میں مصروف رہتے تھے کہ ان کے استاد کو انہیں مارنا پڑتا تھا۔ ان کے معلم کا کہنا تھا کہ جوانی کو ایسے کاموں میں ضائع کرنا غلط ہے اور بہتر ہے کہ دل لگا کر پڑھائی کی جائے۔

تو وہ کھیلوں کے اتنے دیوانے کیوں تھے؟ اس لیے کہ انہیں جیتنا اچھا لگتا تھا؟

وہ لکھتے ہیں: ’مجھے کھیل کھیلنے میں مزہ آتا تھا اور ان کھیلوں میں، میں اپنی جھوٹی برتری کی خواہش سے مغلوب ہو جاتا تھا، اس لیے میں جیتنے کی کوشش کرتا، چاہے دھوکہ دے کر ہی کیوں نہ ہو۔‘

آج بھی بہت سے لوگ شاید سینٹ آگسٹین سے اتفاق کریں کہ کھیل میں جیتنے کی خواہش ہی اسے دلچسپ بناتی ہے۔

لیکن کھیلوں کو پسند کرنے کی اور بھی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں۔

قدیم دور میں کون سے کھیل کھیلے جاتے تھے؟

اگر آپ قدیم یونانی یا رومی دور کی کسی شہر کی گلی سے گزرتے تو ممکن ہے کہ آپ بچوں یا بڑوں کو گیند سے کھیلتا دیکھتے۔

تیسری اور دوسری صدی قبل مسیح کے رومی ڈراما نگار پلوٹس کے ایک کردار نے ان لوگوں کی شکایت کروائی تھی، جو سڑکوں پر گیند سے کھیلتے تھے۔

گیند والے کھیل قدیم دنیا میں سب سے مقبول کھیلوں میں شمار ہوتے تھے اور انہیں کئی مختلف طریقوں سے کھیلا جا سکتا تھا۔

’ایپسکیروس‘ (Episkyros) نامی ایک کھیل میں دو ٹیمیں ایک دوسرے کے خلاف کھیلتی تھیں۔ اگر ایک ٹیم گیند کو دوسری ٹیم کے پیچھے والی لکیر سے پار کر دیتی تو اسے پوائنٹ ملتا۔ اس کھیل میں ہاتھ اور پاؤں دونوں استعمال کیے جا سکتے تھے اور کھلاڑیوں کو ایک دوسرے کو جسمانی طورپر روکنے کی اجازت بھی تھی۔

یہ کچھ حد تک آج کے فٹ بال یا رگبی جیسا لگتا ہے۔ یقیناً بہت سے اور کھیل بھی مقبول تھے جن میں دوڑ، تیراکی، کُشتی، وزن اٹھانا اور باکسنگ سب کے پسندیدہ تھے۔

کھیلوں کی ابتدا کے بارے میں قدیم خیالات

قدیم یونانیوں کے مطابق گیند کے کھیل کا سب سے پرانا ذکر ’اوڈیسی‘ نامی رزمیہ نظم میں ملتا ہے, جسے شاعر ہومر نے آٹھویں یا ساتویں صدی قبل مسیح میں تحریر کیا تھا۔

اس نظم میں ناؤسیکا نامی شہزادی اپنی سہیلیوں کے ساتھ ساحل پر گیند سے کھیلتی ہے اور ساتھ گیت بھی گاتی ہے۔ دوران کھیل ناؤسیکا گیند کو بہت دور پھینکتی ہیں اور جب ان کی سہیلی پکڑ نہیں پاتیں تو گیند سمندر میں چلی جاتی ہے اور سب لڑکیاں زور زور سے ہنستی ہیں۔

تیسری صدی قبل مسیح میں ہی کچھ لوگ ناؤسیکا کو گیند کے کھیل کی موجد سمجھنے لگے تھے، لیکن کچھ لوگ کہتے تھے کہ یہ کھیل یونان کے سیکیون یا سپارٹا جیسے ثقافتی مراکز میں ایجاد ہوئے۔

مگر یہ خیال کمزور ہے کہ یونانی ہی گیند کے کھیل کے موجد تھے۔

مصر میں ہومر کی نظموں سے ہزاروں سال پہلے ہی گیند کے کھیلوں کی تصویری جھلکیاں ملتی ہیں۔

مثال کے طور پر مصر کے 11ویں خاندان کے ایک گورنر باقت سوم (2150–2000 قبل مسیح) کے مقبرے میں خواتین کے گیند کھیلنے اور مردوں کے کُشتی کرنے کی تصویریں موجود ہیں۔ گورنر باقت سوم غالباً کھیلوں کے بڑے شوقین تھے۔

لوگ کھیلوں کو کیوں پسند کرتے تھے؟

لوگ مختلف وجوہات کی بنا پر گیند کے کھیلوں سے لطف اندوز ہوتے تھے۔

ایک تو خود کھیلنے کا مزہ اور جوش اور دوسرا یہ کہ اسے جسمانی صحت کے لیے مفید تصور کیا جاتا تھا۔

قدیم یونانی اور رومی طبیب تو اپنے مریضوں کو صحت بہتر بنانے کے لیے گیند سے کھیلنے کا مشورہ دیتے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مثال کے طور پر 129 تا 216 عیسوی کے مشہور یونانی طبیب گیلن نے ’چھوٹی گیند کے ساتھ ورزش‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا، جس میں انہوں نے کہا کہ ’چھوٹی گیند کے ساتھ کی جانے والی ورزشیں باقی تمام ورزشوں سے بہتر ہیں۔‘

گیلن کا کہنا تھا کہ گیند کے کھیل پورے جسم کی ورزش کے لیے اہم ہیں اور ٹیم ورک روح کے لیے مفید ہے۔

قدیم لوگ یہ بھی سمجھتے تھے کہ کھیل دیکھنا بھی فائدہ مند ہو سکتا ہے۔

مثال کے طور پر 120عیسوی میں پیدا ہونے والے مصنف لوسیئن آف ساموساتا نے لکھا کہ کھلاڑیوں کو جیتنے کی کوشش کرتے دیکھنا لوگوں کو محنت اور بہادری کی ترغیب دیتا ہے۔

لہٰذا یہ بات واضح ہے کہ کھیل کھیلنے اور دیکھنے کی ہماری موجودہ دلچسپی کوئی نئی بات نہیں، یہ جذبہ ہزاروں سال پہلے بھی موجود تھا اور غالباً آنے والے ہزاروں سالوں تک جاری رہے گا۔

نوٹ: یہ تحریر پہلے دا کنورسیشن پر شائع ہوئی تھی اور اس کا ترجمہ ان کی اجازت سے پیش کیا جا رہا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ