’ایک طرف زلزلے نے مشکلات مزید بڑھا دی ہیں اور دوسری طرف پاکستان نے ہمیں یہاں سے جانے کا کہا ہے۔ وہاں (افغانستان) میں ہمارا گھر ہے نہ چھت تو بچوں کو کھلے میدان میں کیسے چھوڑ سکتے ہیں۔‘
یہ کہنا ہے افغانستان کے مشرقی صوبے لغمان سے تعلق رکھنے والے عزیز خان کا جو گذشتہ 40 سالوں سے پاکستان میں مقیم ہیں۔‘
پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کو دی گئی ڈیڈ لائن یکم ستمبر کو ختم ہو گئی ہے جس کے بعد ان تمام افراد کو واپس افغانستان جانے کا کہا گیا ہے۔
لغمان افغانستان میں اتوار اور پیر کی درمیانی شب آنے والے 6.0 شدت کے زلزلے سے متاثرہ صوبوں میں شامل ہے جبکہ سب سے زیادہ نقصان صوبہ کنڑ میں ہوا ہے کہاں مرنے والوں کی تعداد 1400 سے تجاوز کر گئی ہے اور پانچ ہزار سے زائد مکانات کو نقصان پہنچا ہے۔
ایسے میں پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کی بھی مشکلات اور پریشان مزید بڑھ گئی ہے۔
پشاور کے بورڈ بازار جسے ’منی کابل‘ بھی کہا جاتا ہے، میں گیس کے چولہوں کا کاروبار کرنے والے عزیز خان انخلا کی ڈیڈ لائن ختم ہونے اور زلزلے سے ہونے والی تباہی کو دیکھ کر پریشان ہیں۔
عزیز خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ لغمان سمیت وہاں کے مختلف صوبوں میں ’اموات کی تعداد بہت زیادہ ہے اور افغانستان حکومت ملبے تلے دبے افراد کو نکالنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن ہسپتالوں میں علاج معالجے کے مسائل ہیں۔‘
’زلزلے کے بعد اب یہاں (پاکستان) سے جانا اور بغیر گھر کے رہنا نہایت ہی مشکل ہے کیونکہ پاکستان میں ہمارا کاروبار ہے اور وہ بھی اب ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے۔‘
عزیز خان کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں لوگوں نے ہمارے اور ہم نے لوگوں کے پیسے دینے ہیں۔ اب یہ تمام معاملات اتنے کم عرصے میں حل کرنا بہت زیادہ مشکل ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بورڈ بازار کے حوالے سے عزیز نے بتایا کہ وہاں سات ہزار سے زائد دکانیں ہیں اور انہیں چلانے والے تقریباً سب کے سب افغان پناہ گزین ہیں۔ ’تو یہ لوگ وہاں جا کر گھر کا خرچہ کیسے چلائیں گے۔‘
’گھر نہ ہونا ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے کیونکہ یہاں جتنے بھی دکاندار ہیں، ان میں چند لوگوں کے ہیں وہاں مکانات ہیں جبکہ باقی کا وہاں کچھ بھی نہیں ہے۔‘
اپنے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے عزیز خان نے کہا کہ ایک اور مشکل افغانستان میں کاروبار کا نہ ہونا ہے۔
’وہاں جا کر ہم کیا کریں گے؟ کیونکہ وہاں نہ ہمارے پاس دکان ہے اور نہ کوئی مارکیٹ۔ ہم افغانستان جانا چاہتے ہیں، زبردستی یہاں نہیں رہنا چاہتے لیکن وہاں ہمارا گھر موجود نہیں ہے۔‘
دوسری جانب پاکستان میں مقیم مختلف افغان اقوام کے شوریٰ کے سربراہ عصمت اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستان نے 45 سال تک افغان پناہ گزینوں کی میزبانی بہت اچھے طریقے سے کی ہے۔
تاہم ان کے مطابق پناہ گزینوں کو جانے کے لیے ’بہت کم وقت‘ دیا گیا ہے اور اتنے کم عرصے میں یہاں سب کچھ سمیٹ کر جانا بہت مشکل ہے۔
عصمت اللہ کے مطابق ’اب تو زلزلے کی وجہ سے وہاں مزید مشکلاف میں اضافہ ہو گیا ہے جبکہ افغان شہریوں کے لیے ویزا کا اصول بھی بہت مشکل ہے۔‘
’یہاں افغان پناہ گزین اگر کاروبار کرتے ہیں تو اس کا فائدہ بھی پاکستانی معیشت کو ہے اور اسی وجہ سے خاص کر کاروباری طبقے کو ویزا کے اصول میں آسانی لانے کی ضرورت ہے۔‘